انہوں نے کہا کہ ’مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ جموں وکشمیر میں کسی کو بھی قابل قبول نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ 'کشمیری مسلمان کبھی بھی فرقہ پرست نہیں تھے'۔
پروفیسر بھیم سنگھ نے ہفتہ کے روز یہاں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: 'آج کے حالات سے آپ واقف ہیں، پانچ اگست کے بعد پورا جموں وکشمیر بند ہوگیا، پارلیمنٹ نے نیا قانون بنایا جس کو جموں وکشمیر کی تشکیل نو کا نام دیا گیا، تشکیل نو تو پنتھرس پارٹی کا ایک پرانا نعرہ تھا، لیکن تشکیل نو کی آڑ میں جموں وکشمیر کے ٹکڑے ٹکڑے نہیں کئے گئے لیکن جموں وکشمیر کو ہمیشہ کے لئے دہلی کا غلام بنادیا گیا'۔
انہوں نے مزید کہا: 'جموں وکشمیر ایک پرانی ریاست ہے، ملک میں جب ریاستیں بنی تھیں تو جموں وکشمیر سب سے پرانی تھی، جموں کے لوگوں بالخصوص ڈوگرائوں نے چاہے وہ مہاراجہ گلاب سنگھ ہوں، یا زورآور سنگھ ہوں، لداخ کے لوگ ہوں، نے 1842 میں ایک بڑی قربانی دیکر یہ ریاست بنائی تھی'۔
پروفیسر بھیم سنگھ نے تقریب کے حاشیے پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ 'کشمیری مسلمان کبھی بھی فرقہ پرست نہیں تھے، انہوں نے کہا: 'کشمیری مسلمان نہ فرقہ پرست تھے نہ آج ہیں۔ کشمیری مسلمان اتنے ہی سیکولر ہیں جتنے پنڈت اور بھیم سنگھ ہیں۔ کشمیر میں ملی ٹنسی کو جنم دینے کے لئے سیاسی جماعتیں ذمہ دار ہیں'۔
ان کا مزید کہنا تھا: 'جموں وکشمیر دلی کی غلام رہے گی، یہ ہمیں، مجھے، کشمیر اور جموں کو قابل قبول نہیں ہے'۔
قابل ذکر ہے کہ مرکزی حکومت نے 5 اگست کو ریاست کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے ہٹادی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام والے علاقے بنانے کا اعلان کیا۔ وادی کشمیر میں تب سے لیکر اب تک ہڑتال اور مواصلاتی خدمات پر پابندی عائد ہے جس کی وجہ سے معمول کی زندگی معطل ہے۔