ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے رواں برس عالمی یوم ہیپاٹائٹس کا تھیم 'انویسٹ ان ایلیمنیٹنگ ہیپاٹائٹس' رکھا گیا ہے۔
دراصل اس روز کو خاص طور پر اس لیے منتخب کیا گیا ہے کیونکہ اس روز نوبل انعام یافتہ سائنسداں ڈاکٹر باروچ بُلمبرگ کا یوم پیدائش ہے جنہوں نے ہیپاٹائٹس بی وائرس کو دریافت کرکے اس کی تشخیص اور ویکسین تیار کرکے اس کا علاج ممکن بنایا۔
ہیپاٹائٹس ایک موذی وائرس ہے جس کی کئی اقسام ہیں۔ جیسے ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی اور ای۔
یہ ایک ایسا خطرناک وائرل مرض ہے، جو انسان کے جگر میں انفیکشن پیدا کرتا ہے۔ وقت پر علاج نہ ہونے کی وجہ سے یہ مرض جگر کے سرطان (کینسر )کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ان اقسام میں ہیپاٹائٹس سی، ڈی اور ای کے پھیلنے کی وجہ ایک جیسی ہے۔ تاہم ہیپاٹائٹس سی اور بی انتہائی سنگین وائرس ہے کیونکہ ان سے لمبے عرصے تک ایک مریض میں بیماری کی علامات کا پتہ نہیں چلتا جس کے سبب یہ جگر کے سرطان کا سبب بن سکتے ہیں۔
جبکہ ہیپاٹائٹس اے اور ای ان علاقوں میں زیادہ پھیلتا ہے، جہاں پینے کے صاف پانی کی قلت ہوتی ہے۔
ہیپاٹائٹس بی کا شکار عام طور پر بچے ہو جاتے ہیں، یہ وائرس ان پسماندہ علاقوں میں زیادہ پھیلتے ہیں جہاں وسیع پیمانے پر بچوں کی ٹیکہ کاری یا ویکسینیشن نہیں ہوتی ہے۔
ہیپاٹائٹس کی علامات میں تھکاوٹ، وزن کم ہونا، بھوک نہ لگنا، پیٹ میں اکثر درد رہنا، بخار، قئے، جلد اور آنکھیں زرد ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
یہ مرض ان علاقوں میں تیزی سے پھیل جاتا ہے جہاں صفائی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ ایسے مریض ہیں جو اپنے مرض کے بارے میں بے خبر ہوتے ہیں جس کے سبب یہ وائرس دیگر افراد میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق آلودہ پانی اور ناقص خوراک کا استعمال ہیپاٹائٹس اے اور ای کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ ہے جبکہ بی، سی اور ڈی خون کی منتقلی جیسے استعمال شدہ سرنجس، دانت نکالنے کے دوران آلودہ آلات کا استعمال، آلودہ شیونگ بلیڈ کا استعمال وغیرہ سے یہ وائرس پھیلتے ہیں۔ یہ وائرس حاملہ خاتون سے پیٹ میں پل رہے بچے میں بھی منتقل ہو سکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے ایک اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں ہر برس دس لاکھ سے زیادہ لوگ اس مرض کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں اس وقت ہیپاٹائٹس اے کے 14 لاکھ، ہیپاٹائٹس بی کے دو ارب اور ہیپاٹائٹس سی کے 15 کروڑ سے زائد لوگ اس کا شکار ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں چار کروڑ لوگ ہیپاٹائٹس بی جبکہ چھ سے 12 ملین کی آبادی ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں۔
اس مرض پر قابو پانے کے لیے ملکی و عالمی سطح پر کوششیں جاری ہیں۔ ہیپاٹائٹس سے محفوظ رکھنے کے لیے جہاں بچوں کی ٹیکہ کاری، ویکسینیشن کی جاتی ہے۔ وہیں اس مرض میں مبتلا مریضوں کا علاج و معالجہ مفت دستیاب رکھا گیا ہے۔ ان مریضوں کے لیے تشخیص سے لے کر ادویات کا ڈوز تک مفت مہیا کرایا جاتا ہے۔
لوگوں میں ہیپاٹائٹس کے سلسلے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ وہیں شہر و گاؤں تمام سرکاری طبی مراکز میں لوگوں کی اسکریننگ کی جاتی ہے تاکہ اس وائرس کو قابو کیا جائے ۔