احمدآباد میں 26 جولائی 2008 کو ہوئے سلسلہ وار بم دھماکے کے ملزمین کی سزا کا اعلان کردیا گیا ہے۔ کل احمدآباد کی خصوصی عدالت Ahmadabad Special Court Judgment کے جج اے آر پٹیل نے 49 ملزمین میں سے 38 کو سزائے موت اور باقی گیارہ ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی تھی ایسے میں ان ملزمین کا دفاع کرنے والے وکلا ایم ایم شیخ اور خالد شیخ سے ای ٹی وی بھارت کی نمائندہ روشن آرا انصاری نے خصوصی بات چیت کی۔ Defense Lawyers Exclusive Talks on Ahmadabad Bomb Blast Judgment
اس تعلق سے دفاعی وکیل ایم ایم شیخ نے بتایا کہ 26 جولائی 2008 کو احمدآباد میں سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے تھے۔ احمدآباد کے 20 مقامات پر 21 بم دھماکے اس وقت ہوے تھے۔ جس میں 56 افراد ہلاک ہوئے اور 244 افراد زخمی ہوے تھے۔ احمدآباد میں 20 اور سورت میں اس معاملے کی 15 ایف آئی آر درج کی گئی تھی کُل 35 ایف آئی آر اس معاملے کی درج ہوئی تھیں، جس میں 78 ملزمین کو گرفتار کیا گیا تھا جو بھارت کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھتے تھے اور احمدآباد سابر متی جیل کے علاوہ دوسری ریاستوں کی جیل میں ملزمین کو گرفتار کر بند کیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے کا کیس ہم نے خصوصی عدالت میں لڑا۔ اس معاملے میں پانچ سو سے زیادہ چارج شیٹ داخل کی گئی تھی اور 14 سال کے بعد اس کیس کا فیصلہ 8 فروری کو آیا جس میں عدالت نے 28 ملزمان کو باعزت بری کیا جب کہ 49 لوگوں قصور وار ٹھہرایا گیا۔
اس معاملے کے حوالے سے پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انڈین مجاہدین سے وابستہ لوگوں نے یہ بم دھماکے کیے ہیں۔ یہی نہیں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ملزمین نے پوچھ گچھ کے دوران اعتراف کیا کہ انڈین مجاہدین نے یہ دھماکہ 2002 کے فسادات کا بدلہ لینے کے لئے کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب خصوصی عدالت نے اس معاملے کے 49 ملزمین کا 18 فروری کے دن فیصلہ سناتے ہوئے ان میں سے 38 کو سزائے موت اور باقی گیارہ ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی۔ 'ہم عدالت کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ امید نہیں تھی کہ اتنے زیادہ لوگوں کو پھانسی کی سزا سنائی جائے گی۔ ہم اب اس ججمنٹ کو پڑھنے کے بعد اسے گجرات ہائی کورٹ میں لے جائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ گجرات ہائی کورٹ سے ملزمین کو کچھ راحت ملے گی۔'
وہیں اس مقدمے کے دوسرے وکیل خالد شیخ نے کہا کہ 8 فروری کو جب خصوصی عدالت نے 49 ملزمین میں کو قصور وار ٹھہرایا اور 28 کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کیا۔ اس کے بعد ملزمین کی سزا کے تعین کے لیے مسلسل کورٹ میں سماعت جاری تھی اس دوران 'ہماری اپیل تھی کہ عدالت سزا سنانے کے لیے ہمیں 3 ہفتے کا وقت دے۔ مجرموں کو سدھرنے کا بھی موقع دیا جائے۔ لیکن سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ یہ جرم ہے ان ملزمین کو زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے۔
ہم نے ملزمین کی تعلیمی قابلیت اور ان کے حالات جاننے کا وقت مانگاتھا جو عدالت نے دیا تھا۔ اس میں سے کچھ قیدی نے جو جیل میں رہ کر پڑھائی بھی کی تھی اور کچھ امتحانات بھی پاس ہوئے تھے اور جیل میں ان کا رویہ بھی اچھا تھا یہ سب کچھ بھی ہم نے عدالت میں بتایا تھا لیکن 38 کو سزائے موت اور 11 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اب ہم گجرات ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائں گے وہاں بھی ان ملزمین کو راحت دلانے کی پوری کوشش رہے گی۔ جمعیت علمائے ہند بھی کیس میں قانونی مدد کر رہی ہے۔ اور آگے بھی یہ مدد جاری رہے گی۔'