از قلم: وسیم سنجر
وطن عزیز کا یہ وہ ادارہ ہے جس کا شمار ملک کی نامور یونیورسٹیز میں ہوتا ہے لیکن گزشتہ دنوں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جو کچھ ہوا، اس نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
مرکز کی مودی حکومت نے لوک سبھا میں شہریت ترمیمی بل (جس کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی چھ اقلیتوں ہندو، سکھ، بودھ، پارسی، جین اور مسیحی مذہب کے لوگوں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی جبکہ مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا) پیش کیا اور یہ بل آسانی کے ساتھ منظور ہوگیا لیکن اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ راجیہ سبھا میں یہ بل منظور نہیں ہو سکے گا چونکہ بل کی منظوری کے لیے جو نمبرز درکار تھے، وہ برسراقتدار جماعتوں کے پاس موجود نہیں تھے اس کے باوجود راجیہ سبھا میں یہ بل نہ صرف آسانی سے منظور ہو گیا بلکہ اس پر صدر رام ناتھ کووند نے دستخط کر دی جس کے بعد اس بل نے قانون کی شکل اختیار کر لی۔
حالاںکہ اس قانون کی آسام سمیت دیگر شمال مشرقی ریاستوں میں طلبا تنظیموں، دانشوروں، فلمی ہستیوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں نے بھی سخت مخالفت کی اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں اس قانون کے خلاف احتجاج ہونے لگا۔
ایک جانب شمال مشرقی ریاستوں کے عوام نے بلا تفریق مذہب و ملت اسے ان کی تہذیب و ثقافت کے لیے خطرہ بتاتے ہوئے واپس لینے کا مطالبہ کیا تو دوسری جانب اسے ملک کے آئین کی دفعہ 14 کے خلاف قرار دیتے ہوئے واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ شہریت شخص کے لیے ہے نہ کہ مذہب کی بنیاد پر ہے لہذا اس قانون سے ملک کی جمہوری اقدار کو ٹھیس پہنچتی ہے جو کسی بھی صورت میں ناقابل قبول ہے۔
اس سلسلے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے اتوار کے روز پرامن احتجاج کیا لیکن شام کے وقت جامعہ نگر میں مظاہرین کی جانب سے سرکاری بسوں کو مبینہ طور پر نذر آتش کرنے کی خبر کے بعد دہلی پولیس لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بلا اجازت داخل ہوئی اور طلبا کو بے رحمی سے پیٹا نیز یونیورسٹی کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا حالانکہ دہلی پولیس کی اس ظالمانہ کارروائی کے خلاف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی کے طلبا سڑکوں پر اتر آئے۔
اس کے علاوہ ملک بھر کی مختلف یونیورسٹیز کے طلبا نے بھی نہ صرف اظہار یکجہتی کیا بلکہ دہلی پولیس کی کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کی جمہوری طور پر اٹھائی جانے والی آواز کو طاقت کے دم پر خاموش کرنے کی جو کوشش کی جا رہی تھی، اس آواز کو جے این یو، ڈی یو، بنارس ہندو یونیورسٹی، مولانا آزاد یونیورسٹی، کولکاتا یونیورسٹی، ممبئی یونیورسٹی، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، عثمانیہ یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی مختلف یونیورسٹیز اور کالجز کے طلبا نے آواز بخشی اور ان تمام باتوں کو ناکام بنا دیا جس کے ذریعے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں بگاڑ پیدا ہو سکتا تھا۔
علامہ اقبال کا یہ شعر ملک کے طلبا کی ہمت و جرات پر صادق آتا ہے جنہوں نے نہ صرف بلاتفریق مذہب و ملت صدائے حق بلند کیا بلکہ ارباب اقتدار کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں