ETV Bharat / state

راہل گاندھی کی شہریت کا کیا ہے پورا معاملہ؟ - برطانوی شہریت

سپریم کورٹ نے کانگریس کے صدر راہل گاندھی کی مبینہ طور پر برطانوی شہریت کے معاملے میں ان کے انتخاب لڑنے پر پابندی عائد کرنے سے متعلق عرضی کو خارج کر دیا۔

raga
author img

By

Published : May 9, 2019, 7:32 PM IST

چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس سنجیو کھنہ کی بینچ نے عرضی گزاروں جے بھگوان گوئل اور پرکاش تیاگی کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ کسی کمپنی میں گاندھی کو محض برطانوی شہری بتانے سے انہیں برطانوی شہری نہیں مانا جا سکتا۔

جسٹس گگوئی نے سوالیہ انداز میں کہا کہ 'کچھ اخبارات انہیں برطانوی شہری قرار دیتے ہیں تو کیا اس سے وہ برطانوی شہری ہو گئے۔کسی کمپنی نے راہل گاندھی کو برطانوی شہری بتایا ہے تو کیا وہ برطانوی شہری ہو گئے ۔عرضی خارج کی جاتی ہے۔'

قبل ازیں عرضی گزاروں نے دلیل دی کہ گاندھی ملک کے وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار ہیں۔ اس پر جسٹس گگوئی نے تقریباً تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ ایک ارب آبادی والا ملک ہے۔ ہر شہری وزیراعظم بننا چاہتا ہے۔ اگر آپ کو موقع ملے گا تو کیا آپ وزیراعظم بننا نہیں چاہیں گے۔'

عرضی گزاروں کا کہنا تھا کہ 'کانگریس کے صدر نے اپنی مرضی سے برطانوی شہریت حاصل کی ہے اس لیے انہیں انتخابات لڑنے اور رکن پارلیمان بننے سے روکا جائے۔'

عرضی میں کہا گیا تھا کہ یہ واضح ہے کہ گاندھی نے برطانوی شہریت حاصل کی ہے۔ یہ معاملہ تب سامنے آیا جب برطانیہ کی بیک آپس نامی کمپنی نے اپنا انکم ٹیکس ریٹرن داخل کیا۔

عرضی میں کہا گیا تھا کہ گاندھی حلف نامہ دیں کہ وہ بھارتی شہری نہیں ہیں اور وہ عوامی نمائندگی کے قانون 1951کے پرویژن کے مطابق انتخاب لڑنے سے قاصر ہیں۔

عدالت میں یہ عرضی اس وقت داخل کی گئی تھی، جب گذشتہ 30 اپریل کو مرکزی وزارت داخلہ نے گاندھی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 15 روز میں جواب دینے کے لیے کہا تھا۔ یہ نوٹس انہیں بی جے پی کے رہنما سبرامنیم سوامی کی شکایت کی بنیاد پر بھیجا گیا ہے۔ سوامی کا الزام ہے کہ راہل کے پاس برطانوی شہریت ہے۔

عرضی میں کہا گیا تھا کہ راہل گاندھی نے برطانیہ کی شہریت لے رکھی ہے، اس لیے وزرات داخلہ جلد از جلد اس پر کارروائی کرے اور ان کا نام ووٹر لسٹ سے خارج کر دے۔

اس سے قبل مرکزی وزارت داخلہ نے راہل گاندھی کی شہریت کے معاملے پر ان کو نوٹس جاری کرکے دو ہفتے کے اندر حقائق کے ساتھ وضاحت کا مطالبہ کیا تھا۔

وزرات داخلہ نے نوٹس میں کہا تھا کہ 'انہیں بی جے پی کے رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی کی طرف سے عرضی ملی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ راہل گاندھی 2003 میں برطانوی رجسٹرڈ کمپنی بیک آپس لمیٹیڈ کے ڈائیرکٹرز میں شامل تھے۔

وزارت کے مطابق، سوامی کا کہنا ہے کہ برطانوی کمپنی کے 10 اکتوبر 2005 اور 31 اکتوبر 2006 کو بھرے گئے سالانہ ٹیکس ریٹرن میں راہل گاندھی کی تاریخ پیدائش 19 جون 1970 بتائی گئی ہے اور اس میں گاندھی کو برطانوی شہری بتایا گیا ہے۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ 17 فروری 2009 کو اس کمپنی کی رپورٹ میں آپ کی شہریت برطانوی بتائی گئی ہے لہذا آپ سے گزارش کی جاتی ہے کہ اس بارے میں آپ ایک ہفتے کے اندر حقائق کے ساتھ اپنا موقف وزارت کے سامنے واضح کریں۔

وزارت داخلہ کی جانب سے جاری نوٹس کے بعد کانگریس نے مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا تھا۔

کانگریس کی جنرل سکریٹری اور راہل کی ہمشیرہ پرینکا گاندھی نے کہا تھا کہ یہ کیا بکواس ہے؟ پورے بھارت کو معلوم ہے کہ راہل گاندھی بھارتی شہری ہیں، یہاں کے عوام نے ان کو اس ملک میں پیدا ہوتے، ان کی پرورش ہوتے اور بڑے ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ اہم ایشوز سے توجہ ہٹانے کی منصوبہ بند سازش ہے۔

واضح رہے کہ دسمبر 2015 میں سپریم کورٹ راہل گاندھی کی شہریت سے متعلق پیش کیے گئے ثبوتوں کو خارج کر چکی تھی۔

مذکورہ عرضی وکیل ایم ایل شرما نے دائر کی تھی، جسے عدالت نے فرضی بتایا تھا۔

عدالت نے اس وقت دستاویز کی معتبریت پر سوال اٹھائے تھے۔ اس وقت کے چیف جسٹس ایچ ایل دتو کی صدارت والی بینچ نے پوچھا تھا 'آپ کو کیسے پتہ کہ یہ دستاویز معتبر ہیں۔

شرما کے ذریعہ سماعت پر زور دیے جانے پر جسٹس دتو نے کہا تھا کہ 'میرے ریٹائرمنٹ میں محض دو روز باقی ہیں۔آپ مجھے مجبور مت کیجیے کہ میں آپ پر جرمانہ لگادوں۔'

چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس دیپک گپتا اور جسٹس سنجیو کھنہ کی بینچ نے عرضی گزاروں جے بھگوان گوئل اور پرکاش تیاگی کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ کسی کمپنی میں گاندھی کو محض برطانوی شہری بتانے سے انہیں برطانوی شہری نہیں مانا جا سکتا۔

جسٹس گگوئی نے سوالیہ انداز میں کہا کہ 'کچھ اخبارات انہیں برطانوی شہری قرار دیتے ہیں تو کیا اس سے وہ برطانوی شہری ہو گئے۔کسی کمپنی نے راہل گاندھی کو برطانوی شہری بتایا ہے تو کیا وہ برطانوی شہری ہو گئے ۔عرضی خارج کی جاتی ہے۔'

قبل ازیں عرضی گزاروں نے دلیل دی کہ گاندھی ملک کے وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار ہیں۔ اس پر جسٹس گگوئی نے تقریباً تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ ایک ارب آبادی والا ملک ہے۔ ہر شہری وزیراعظم بننا چاہتا ہے۔ اگر آپ کو موقع ملے گا تو کیا آپ وزیراعظم بننا نہیں چاہیں گے۔'

عرضی گزاروں کا کہنا تھا کہ 'کانگریس کے صدر نے اپنی مرضی سے برطانوی شہریت حاصل کی ہے اس لیے انہیں انتخابات لڑنے اور رکن پارلیمان بننے سے روکا جائے۔'

عرضی میں کہا گیا تھا کہ یہ واضح ہے کہ گاندھی نے برطانوی شہریت حاصل کی ہے۔ یہ معاملہ تب سامنے آیا جب برطانیہ کی بیک آپس نامی کمپنی نے اپنا انکم ٹیکس ریٹرن داخل کیا۔

عرضی میں کہا گیا تھا کہ گاندھی حلف نامہ دیں کہ وہ بھارتی شہری نہیں ہیں اور وہ عوامی نمائندگی کے قانون 1951کے پرویژن کے مطابق انتخاب لڑنے سے قاصر ہیں۔

عدالت میں یہ عرضی اس وقت داخل کی گئی تھی، جب گذشتہ 30 اپریل کو مرکزی وزارت داخلہ نے گاندھی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 15 روز میں جواب دینے کے لیے کہا تھا۔ یہ نوٹس انہیں بی جے پی کے رہنما سبرامنیم سوامی کی شکایت کی بنیاد پر بھیجا گیا ہے۔ سوامی کا الزام ہے کہ راہل کے پاس برطانوی شہریت ہے۔

عرضی میں کہا گیا تھا کہ راہل گاندھی نے برطانیہ کی شہریت لے رکھی ہے، اس لیے وزرات داخلہ جلد از جلد اس پر کارروائی کرے اور ان کا نام ووٹر لسٹ سے خارج کر دے۔

اس سے قبل مرکزی وزارت داخلہ نے راہل گاندھی کی شہریت کے معاملے پر ان کو نوٹس جاری کرکے دو ہفتے کے اندر حقائق کے ساتھ وضاحت کا مطالبہ کیا تھا۔

وزرات داخلہ نے نوٹس میں کہا تھا کہ 'انہیں بی جے پی کے رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی کی طرف سے عرضی ملی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ راہل گاندھی 2003 میں برطانوی رجسٹرڈ کمپنی بیک آپس لمیٹیڈ کے ڈائیرکٹرز میں شامل تھے۔

وزارت کے مطابق، سوامی کا کہنا ہے کہ برطانوی کمپنی کے 10 اکتوبر 2005 اور 31 اکتوبر 2006 کو بھرے گئے سالانہ ٹیکس ریٹرن میں راہل گاندھی کی تاریخ پیدائش 19 جون 1970 بتائی گئی ہے اور اس میں گاندھی کو برطانوی شہری بتایا گیا ہے۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ 17 فروری 2009 کو اس کمپنی کی رپورٹ میں آپ کی شہریت برطانوی بتائی گئی ہے لہذا آپ سے گزارش کی جاتی ہے کہ اس بارے میں آپ ایک ہفتے کے اندر حقائق کے ساتھ اپنا موقف وزارت کے سامنے واضح کریں۔

وزارت داخلہ کی جانب سے جاری نوٹس کے بعد کانگریس نے مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا تھا۔

کانگریس کی جنرل سکریٹری اور راہل کی ہمشیرہ پرینکا گاندھی نے کہا تھا کہ یہ کیا بکواس ہے؟ پورے بھارت کو معلوم ہے کہ راہل گاندھی بھارتی شہری ہیں، یہاں کے عوام نے ان کو اس ملک میں پیدا ہوتے، ان کی پرورش ہوتے اور بڑے ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ اہم ایشوز سے توجہ ہٹانے کی منصوبہ بند سازش ہے۔

واضح رہے کہ دسمبر 2015 میں سپریم کورٹ راہل گاندھی کی شہریت سے متعلق پیش کیے گئے ثبوتوں کو خارج کر چکی تھی۔

مذکورہ عرضی وکیل ایم ایل شرما نے دائر کی تھی، جسے عدالت نے فرضی بتایا تھا۔

عدالت نے اس وقت دستاویز کی معتبریت پر سوال اٹھائے تھے۔ اس وقت کے چیف جسٹس ایچ ایل دتو کی صدارت والی بینچ نے پوچھا تھا 'آپ کو کیسے پتہ کہ یہ دستاویز معتبر ہیں۔

شرما کے ذریعہ سماعت پر زور دیے جانے پر جسٹس دتو نے کہا تھا کہ 'میرے ریٹائرمنٹ میں محض دو روز باقی ہیں۔آپ مجھے مجبور مت کیجیے کہ میں آپ پر جرمانہ لگادوں۔'

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.