دہلی پہنچنے کے بعد وفد کے ارکان نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں دو ماہ سے جاری لاک ڈاون کے بعد سماجی کارکنوں پر مشتمل ایک وفد عوام سے ملاقات کی غرض سے وادی کا دورہ کرنا چاہتا تھا لیکن وفد کو سرینگر ائیرپورٹ پر ہی روک دیا گیا اور اسے واپس دہلی بھیج دیا گیا۔
نیشنل الائنس آف پیپلز مومنٹ کے وفد میں لوک شکتی ابھیان کے پرفل سامنترا، خدائی خدمت گار کے فیصل خان، سوشلسٹ پارٹی کے سندیپ پانڈے اور سماجی کارکن محمد جاوید ملک شامل تھے۔
گاندھی وادی کے نام سے مشہور فیصل خان نے بتایا کہ ہمیں ایئر پورٹ پر ہی روک دیا گیا اور ہمیں نماز جمعہ پڑھنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکام کا رویہ تاناشاہی تھا اور کوئی کچھ سننے کو تیار نہیں تھا۔
فیصل خان نے کہا کہ ہم گاندھی وادی لوگ ہیں اور گاندھی جی کی 150 ویں سالگرہ کے موقع پر ہم نے اپنی ضمیر کی آواز پر دو ماہ سے لاک ڈاون کے شکار عوام سے ملاقات کرنا چاہتے تھے جبکہ یہ لوگ ہمارے ملک کے شہری ہیں۔ حکام کی جانب سے ہمیں ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم وہاں کوئی جلسہ کرنے نہیں گئے تھے بلکہ ہمارا مقصد صرف کشمیریوں کو یہ بتانا تھا کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔
سندیپ پانڈے نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کئی بار کشمیر جانے کی کوشش کی لیکن ہمیشہ ہمیں روکا گیا۔
انہوں نے سوال کیا کہ ’کشمیر میں ہمارے وجود سے کس کو خطرہ ہے؟
سندیپ پانڈے نے کہا کہ ہم پانچ لوگ سرینگر گئے تھے جس کے بعد بڈگام انتظامیہ کی جانب سے ہمیں نوٹس دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ترقیاتی پروجیکٹ کی بات کر رہی ہے مگر صورتحال اس کے بلکل برعکس ہے۔
سندیپ نے کہا کہ اگر حکومت کو روکنا ہی ہے تو ہمیں دہلی میں ہی روکا جا سکتا تھا لیکن ہمیں سرینگر پہنچنے کے بعد روکا گیا۔
وفد کے ارکان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جموں و کشمیر میں فوری طور پر جمہوریت کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ منتخب حکومت ہی کشمیر کے حالات کو بہتر بناسکتی ہے۔