دیہی علاقوں سے شہروں میں آکر مزدوری کرنے والے مزدوروں کو محض کام کرنے کی پریشانی نہیں ہے بلکہ انہیں کام کی تلاش کے لیے بھی کافی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لیکن حکومت کی جانب سے کوئی خاص انتظامات نہیں کیے جانے سے انہیں اپنے گھر سے دوسرے شہر جانے کی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مزدور کو پسینہ سوکھنے سے پہلے سے مزدوری دے دینی چاہیے تاکہ وہ مطمئن ہوجائے۔
تاہم ایسا نہیں ہوتا کچھ لوگ کمزور اور مظلوم سمجھ کر ان کے ساتھ زیادتی واستحصال کرتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت نے کچھ مزدوروں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں محض آٹھ گھنٹے کام کرنے کے بعد 230 روپے ملتے ہیں جبکہ دہلی کی قانون کے حساب سے مزدور کو کم از کم 13350 روپے ماہانہ دیا جانا چاہیے، لیکن اس قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ملازمین کے ساتھ ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
یہ مزدور نہ تو حکومت اور نہ ہی اپنے کفیل سے اس تعلق سے بات کر سکتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اگر وہ اس بارے میں بات کریں گے تو شاید انہیں اتنی بھی رقم نہ دیں جتنا انہیں ابھی مل رہی ہے۔
اگر وہ اس سوچ میں بیٹھے رہیں کہ انہیں 13350 روپے ماہانہ ہی دیا جائے تو شاید وہ زندگی بھر کام ہی نہ کر پائیں۔
وہی دوسرے ملازم جو گزشتہ چالیس برس سے دہلی میں ملازمت کر رہے ہیں وہ آج بھی محض دس گھنٹے کی ڈیوٹی دینے کے بعد تین سو روپے روز کماتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ دنیا بھر کے تقریباً 80 ممالک میں یکم مئی کو عالمی یوم مزدور منایا جاتا ہے۔
بھارت میں سب سے پہلے ایک مئی 1923 کو مدراس میں اس کی شروعات ہوئی تھی، جبکہ عالمی سطح پر یوم مزدور کی شروعات ایک مئی 1886 کو ہوئی تھی۔