انہوں نے اپنے صحافتی بیان میں کہا کہ ڈاکٹر خان ایک ذمہ دار اور سنجیدہ دانشور، صحافی اور مصنف ہیں۔ ان کی انگریزی، عربی اور اردو تحریریں دنیا بھر میں پڑھی جاتی ہیں اور اس وقت تو وہ ریاستی اقلیتی کمیشن جیسے اہم قانونی اور نیم عدالتی ادارہ کے سربراہ بھی ہیں۔
اقلیتوں کے خلاف ہورہی ناانصافیوں پر بولنا اور حکومت کو متوجہ کرنا ان کے سرکاری فرائض میں داخل ہے۔ اگر ایف آئی آر کی یہ خبر درست ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی معتبر شخصیات ہی نہیں بلکہ اہم قانونی ادارے بھی پولیس کی دست درازیوں سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔
یہ بات پورے ملک کے لئے نہایت تشویشناک ہے۔ امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ ان کے جس بیان کو اس شرمناک کیس کے لئے بنیاد بنایا جارہا ہے، اس کے بعض حصوں سے اختلاف ممکن ہے۔ خود انہوں نے اس پر اپنا وضاحتی بیان جاری کردیا ہے۔
لیکن اس کے باوجود، بعض شرپسند متعصب ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا ٹرولس کے دباؤ پر دہلی پولیس کی یہ حرکت پورے ملک کے لئے انتہائی شرمناک ہے۔
حالانکہ سارا ملک یہ دیکھ رہا ہے کہ یہی پولیس، اقلیتوں اور ان کے مذاہب کے خلاف ان انتہائی زہریلی اور نفرت انگیز پوسٹوں کو مسلسل نطر انداز کرتی آرہی ہے، جن سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس بھرے پڑے ہیں۔
اس حرکت سے دہلی پولیس کی غیر جانب داری اور پیشہ وارانہ دیانت پر بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہوتا ہے۔ جناب سعادت اللہ حسینی نے دہلی اقلیتی کمیشن کے ذریعہ اقلیتوں کے مسائل کے حل کے لئے ڈاکٹر خان کی سنجیدہ کوششوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بروقت اقدامات نے دہلی کی تمام اقلیتوں مسلم، سکھ، عیسائیوں وغیرہ میں کمیشن کے اعتبار کوبڑھایا ہے۔
خان صاحب نے دنیا بھر میں انتہاپسندی اور مذہبی تشدد کے خلاف کثرت سے لکھا ہے۔ داعش اور اس جیسی انتہا پسند تنظیموں کے اقدامات پر ان کی سخت مذمت، بیانات اور تجزیوں نے انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ان بیانات اور مضامین نے دنیا بھر میں ہمارے ملک کے وقارکو بڑھایا ہے۔ آج اگر وہ ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور فرقہ پرستی کے خلاف کچھ بولتے ہیں تو اسے ملک اور ملک کے عوام سے ان کی محبت اور انتہا پسندی کے خلاف ان کی مستقل جدوجہد کے ایک حصے کے طور پر لیا جانا چاہیے۔
امیر جماعت اسلامی ہند نے حکومت کے ذمہ داروں اور دہلی پولیس کے عہدہ داروں سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری اس کیس کو واپس لیں اور جو لوگ ڈاکٹر خان کے بیان کو ان کی وضاحت کے باوجود، غلط معنی پہناکر اسے ملک میں نفرت اور تفریق کے فروغ کے لئے استعمال کررہے ہیں ان پر روک لگائیں۔