ETV Bharat / state

جے پور سلسلہ وار بم دھماکہ: 12 سال بعد شہباز احمد کی رہائی

author img

By

Published : Feb 25, 2021, 6:21 PM IST

13 مئی 2008 کو راجستھان کے ثقافتی شہر جے پور میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکہ کیس میں ملزم بنائے گئے لکھنؤ کے ایک نوجوان کو گذشتہ روز جے پور ہائی کورٹ نے مشروط ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کئے۔

Jaipur serial bomb blast: Shahbaz Ahmed released after 12 years
جے پور سلسلہ وار بم دھماکہ: 12 سال بعد شہباز احمد کی رہائی

شہباز احمد کو قبل ازیں 7 مقدمات میں بری کیا جاچکا ہے جبکہ دیگر 2 مقدمات میں ضمانت حاصل ہوئی ہے۔ ایک مقدمہ میں سپریم کورٹ کی جانب سے ضمانت کی منظوری کے بعد گذشتہ روز جے پور ہائی کورٹ کے جسٹس پنکج بھنڈاری نے بھی ایک اور مقدمہ میں انہیں ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کئے۔

جے پور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد شہباز احمد کی 12 سال کے طویل عرصے بعد جیل سے رہائی کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔

جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے شہباز احمد کی رہائی کی اطلاع دی۔ انہوں نے مقدمہ سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ملزم پر الزام تھا کہ وہ ممنوع شدت پسند تنظیم انڈین مجاہدین کا رکن ہے اور اس نے دیگر 4 ملزمین کے ساتھ سلسلہ وار بم دھماکے کیے تھے۔ ان دھماکوں میں 80 افراد اور دیگر 176 افراد زخمی ہوئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ گذشتہ برس ایک عدالت نے اپنے فیصلہ میں جہاں 4 ملزمین کو قصور وار ٹھہرایا تھا۔ وہیں شہباز احمد کو باعزت بری کردیا تھا۔ عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد جے پور پولس نے ملزم شہباز کو 12 سال پرانے ایک دوسرے مقدمہ میں گرفتار کر لیا تاکہ اس کی جیل سے رہائی نہ ہوسکے۔ ملزم شہباز احمد کی ضمانت کی عرضی پر بحث کے دوران ایڈوکیٹ نشانت ویاس اور ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ جے پور پولس ملزم کو پریشان کرنے کے لیے ایک اور مقدمہ میں گرفتار کیا ہے جبکہ یہ کیس گذشتہ 12 سالوں سے بند تھا۔

گلزار اعظمی نے کہا کہ وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کو جن الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اسے ان الزامات سے گذشتہ سال نچلی عدالت نے بری کر دیا تھا لہذا اب ملزم کی گرفتاری غیر قانونی ہے اور اس پر ایک ہی الزام کے تحت دو مقدمات نہیں چلائے جاسکتے۔ دفاعی وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزم کو نہ صرف 12 سالوں سے جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کیا گیا بلکہ دوران قید اسے جسمانی طور پر بھی شدید زد و کوب کیا گیا جس کی شکایت ملزم نے سپریم کورٹ سے کی تھی، جس پر سپریم کورٹ نے سبکدوش آئی اے ایس افسر سے تحقیقات کرانے کا حکم دیا ہے اور تحقیقات جاری ہے۔

جے پور ہائی کورٹ کے جسٹس بھنداری نے دفاعی وکلاء کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے ملزم کو مشروط ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے جبکہ وکیل استغاثہ نے ملزم کی ضمانت پر رہائی کی سخت مخالفت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ملزم پر بم دھماکے انجام دینے کا سنگین الزام ہے لہذا اسے ضمانت پر رہا نہیں کیا جانا چاہئے۔

اس پورے معاملے پر اپنے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ یہ معاملہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا ہے، اس میں ایک بے گناہ کو شدت پسندی کے الزام میں گرفتار کر کے 12 سال تک جیل کے اندر رکھا گیا اور جب وہ دہشت پسندی کے سات مقدمات سے باعزت بری ہوا تو جے پور پولیس نے اسے ایک دوسرے بہت پرانے معاملے میں ملوث کر کے بدستور جیل میں رکھنے کی سازش کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ ملک کی تفتیشی ایجنسیوں اور پولیس کے رویہ پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ شہباز نے بے گناہی کے جو قیمتی 12 سال جیل میں گزارے اس کی تلافی کون کرے گا؟

انہوں نے مزید کہا کہ سات مقدمات میں شہباز کا باعزت بری ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ شدت پسندی کے آسیب کو مسلم نوجوانوں کی زندگیوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے زندہ کیا گیا تھا اور جب یہ افسوسناک سلسلہ ملک گیر پیمانے پر شروع کیا گیا تو کچھ ایسا ماحول قائم کر دیا گیا تھا کہ اس کے خلاف کوئی لب کشائی کی جرأت بھی نہیں کرسکتا تھا۔

مولانا مدنی نے میڈیا کے رول پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ شدت پسندی کے الزام میں ہونے والی گرفتاریوں کی خوب تشہیر کی جاتی ہے لیکن جب عدالت سے ان کی بے گناہی ثابت ہوتی ہے تو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی ترقی کی سخت مخالف ہے، اس لیے تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی زندگیوں کو برباد کرنے کے لئے شدت پسندی کو ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر بے دریغ استعمال کیا۔

انہوں نے اس بات پر بھی شدید دکھ کا اظہار کیا کہ ایک ملزم پر ایک ہی الزام کے تحت لاتعداد مقدمے قائم کردئے جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ اگر ایک مقدمے میں بری بھی ہوجاتا ہے تو اسے جیل سے رہائی نہیں مل پاتی، مقدمے بدستور چلتے رہتے ہیں، اس طرح مذکورہ شخص کے قیمتی ماہ وسال قانونی لڑائی لڑنے میں ضائع ہوجاتے ہیں اور جب وہ ان تمام جھوٹے مقدمات سے باعزت بری ہو کر جیل سے باہر آتا ہے۔ اس کی دنیا تاریک ہوچکی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ظلم نہیں ظلم کی انتہا ہے، اس لیے اب عدالتی نظام میں تیزی لانا وقت کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ تفتیشی ایجنسیوں اور پولس کی جوابدہی بھی طے ہونا چاہیے۔

شہباز احمد کو قبل ازیں 7 مقدمات میں بری کیا جاچکا ہے جبکہ دیگر 2 مقدمات میں ضمانت حاصل ہوئی ہے۔ ایک مقدمہ میں سپریم کورٹ کی جانب سے ضمانت کی منظوری کے بعد گذشتہ روز جے پور ہائی کورٹ کے جسٹس پنکج بھنڈاری نے بھی ایک اور مقدمہ میں انہیں ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کئے۔

جے پور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد شہباز احمد کی 12 سال کے طویل عرصے بعد جیل سے رہائی کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔

جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے شہباز احمد کی رہائی کی اطلاع دی۔ انہوں نے مقدمہ سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ملزم پر الزام تھا کہ وہ ممنوع شدت پسند تنظیم انڈین مجاہدین کا رکن ہے اور اس نے دیگر 4 ملزمین کے ساتھ سلسلہ وار بم دھماکے کیے تھے۔ ان دھماکوں میں 80 افراد اور دیگر 176 افراد زخمی ہوئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ گذشتہ برس ایک عدالت نے اپنے فیصلہ میں جہاں 4 ملزمین کو قصور وار ٹھہرایا تھا۔ وہیں شہباز احمد کو باعزت بری کردیا تھا۔ عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد جے پور پولس نے ملزم شہباز کو 12 سال پرانے ایک دوسرے مقدمہ میں گرفتار کر لیا تاکہ اس کی جیل سے رہائی نہ ہوسکے۔ ملزم شہباز احمد کی ضمانت کی عرضی پر بحث کے دوران ایڈوکیٹ نشانت ویاس اور ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ جے پور پولس ملزم کو پریشان کرنے کے لیے ایک اور مقدمہ میں گرفتار کیا ہے جبکہ یہ کیس گذشتہ 12 سالوں سے بند تھا۔

گلزار اعظمی نے کہا کہ وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کو جن الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اسے ان الزامات سے گذشتہ سال نچلی عدالت نے بری کر دیا تھا لہذا اب ملزم کی گرفتاری غیر قانونی ہے اور اس پر ایک ہی الزام کے تحت دو مقدمات نہیں چلائے جاسکتے۔ دفاعی وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ ملزم کو نہ صرف 12 سالوں سے جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کیا گیا بلکہ دوران قید اسے جسمانی طور پر بھی شدید زد و کوب کیا گیا جس کی شکایت ملزم نے سپریم کورٹ سے کی تھی، جس پر سپریم کورٹ نے سبکدوش آئی اے ایس افسر سے تحقیقات کرانے کا حکم دیا ہے اور تحقیقات جاری ہے۔

جے پور ہائی کورٹ کے جسٹس بھنداری نے دفاعی وکلاء کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے ملزم کو مشروط ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے جبکہ وکیل استغاثہ نے ملزم کی ضمانت پر رہائی کی سخت مخالفت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ملزم پر بم دھماکے انجام دینے کا سنگین الزام ہے لہذا اسے ضمانت پر رہا نہیں کیا جانا چاہئے۔

اس پورے معاملے پر اپنے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ یہ معاملہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا ہے، اس میں ایک بے گناہ کو شدت پسندی کے الزام میں گرفتار کر کے 12 سال تک جیل کے اندر رکھا گیا اور جب وہ دہشت پسندی کے سات مقدمات سے باعزت بری ہوا تو جے پور پولیس نے اسے ایک دوسرے بہت پرانے معاملے میں ملوث کر کے بدستور جیل میں رکھنے کی سازش کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ ملک کی تفتیشی ایجنسیوں اور پولیس کے رویہ پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ شہباز نے بے گناہی کے جو قیمتی 12 سال جیل میں گزارے اس کی تلافی کون کرے گا؟

انہوں نے مزید کہا کہ سات مقدمات میں شہباز کا باعزت بری ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ شدت پسندی کے آسیب کو مسلم نوجوانوں کی زندگیوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے زندہ کیا گیا تھا اور جب یہ افسوسناک سلسلہ ملک گیر پیمانے پر شروع کیا گیا تو کچھ ایسا ماحول قائم کر دیا گیا تھا کہ اس کے خلاف کوئی لب کشائی کی جرأت بھی نہیں کرسکتا تھا۔

مولانا مدنی نے میڈیا کے رول پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ شدت پسندی کے الزام میں ہونے والی گرفتاریوں کی خوب تشہیر کی جاتی ہے لیکن جب عدالت سے ان کی بے گناہی ثابت ہوتی ہے تو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی ترقی کی سخت مخالف ہے، اس لیے تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی زندگیوں کو برباد کرنے کے لئے شدت پسندی کو ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر بے دریغ استعمال کیا۔

انہوں نے اس بات پر بھی شدید دکھ کا اظہار کیا کہ ایک ملزم پر ایک ہی الزام کے تحت لاتعداد مقدمے قائم کردئے جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ اگر ایک مقدمے میں بری بھی ہوجاتا ہے تو اسے جیل سے رہائی نہیں مل پاتی، مقدمے بدستور چلتے رہتے ہیں، اس طرح مذکورہ شخص کے قیمتی ماہ وسال قانونی لڑائی لڑنے میں ضائع ہوجاتے ہیں اور جب وہ ان تمام جھوٹے مقدمات سے باعزت بری ہو کر جیل سے باہر آتا ہے۔ اس کی دنیا تاریک ہوچکی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ظلم نہیں ظلم کی انتہا ہے، اس لیے اب عدالتی نظام میں تیزی لانا وقت کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ تفتیشی ایجنسیوں اور پولس کی جوابدہی بھی طے ہونا چاہیے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.