دفعہ 370 کے تحت جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کیے جانے کے بعد سے پاکستان کی طرف سے اس معاملے کو آگے بڑھانے کی مسلسل کوششوں کے پس منظر میں مذکورہ مشترکہ بیان اہمیت کا حامل ہے۔
بھارت بار بار اپنے اس موقف کا اعادہ کرتا رہا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ حصہ ہے اور دفعہ 370 کو ختم کرنا اس کا داخلی معاملہ ہے کیوں کہ آئین میں یہ ایک عارضی التزام تھا اور بھارت نے اپنے اختیارات کے تحت ہی مذکورہ قدم اٹھایا ہے۔
بھارت یہ بھی واضح کرچکا ہے کہ دفعہ 370 کو ختم کرنے کا لائن آف کنٹرول سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ شملہ معاہدہ اور لاہور اعلامیہ کی بنیاد پر تمام معاملات پر کسی تیسرے فریق کی ثالثی کے بغیر باہمی طورپر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعودی شاہ سلمان بن عبداللہ کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔
مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 'ملکوں کی خود مختاری پر کسی بھی طرح کے حملوں کو روکنے کے سلسلے میں عالمی برداری کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی ضرورت ہے'۔
مودی کے دورے کے دوران بھی یہ بات واضح طورپر دکھائی دی کہ سعودی عرب کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں گزشتہ چند برسوں میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے زیادہ قریب آئے ہیں۔
مشترکہ بیان میں دونوں ملکوں نے انتہاپسندی اور دہشت گردی سے تمام ملکوں اور سماج کو لاحق خطرات پر تشویش کااظہار کیا ہے۔ انہوں نے کسی نسل مذہب یا کلچر کے خلاف اسے استعمال کرنے کی تمام کوششوں کو مسترد کیا۔
دونوں فریق نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی دیگر ملک کے لیے دہشت گردانہ حرکت کو انجام دینے کے خاطر میزائل اور ڈرون سمیت کسی بھی طرح کے ہتھیاروں تک رسائی کو روکنے کی ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ وزیر اعظم مودی یہاں فیوچر انوسٹمنٹ انیشی ایٹیو کے تیسرے سالانہ فورم میں شرکت کے لیے آئے تھے۔وہ دو روزہ دورے کے بعد کل دیررات دہلی واپس لوٹ گئے۔ فورم کا تین روزہ اجلاس کل 31اکتوبر کو اختتام پذیر ہوگا۔