آج عام بجٹ پیش ہونے جارہا ہے۔ ایسی صورتحال میں بجٹ سے تمام طبقات کچھ نہ کچھ توقع کر رہے ہیں۔ توقعات میں اضافہ بھی ہوا ہے کیونکہ کورونا کی وجہ سے ہر طبقہ متاثر ہوا ہے۔نوجوان طبقہ بھی بجٹ میں بہت سی راحت کی توقع کررہا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے بمل انجم نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ انڈسٹری کو پیکج دیا جائے، پیکیج ایسا ہونا چاہیے جس سے پروڈکشن اضافہ ہو۔اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
ہریانہ میں ایسی بہت ساری صنعتیں ہیں جہاں پر انویسمنٹ ہے، ریٹرن بھی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ شرح سود میں اضافہ نہ ہو، شرح میں اضافے سے صنعتکار پر دباؤ بڑھ جاتا ہے، جس سے شراکت کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ جو پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔
تاجروں کی ترقی سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے معیشت کو بھی فروغ ملتا ہے، ایسے میں حکومت کو صنعتی شعبے کی راحت کے لیے سوچنا چاہیے۔ روزگار کے مواقع میں اضافے کے سوال پر ومل انجم نے کہا کہ جب تک حکومت روزگار میں اضافہ نہیں کریں گی، یہ ایک بڑا مسئلہ بنتا جائے گی۔
بمل انجم نے کہا کہ انڈسٹریز کو کم قیمتوں پر بجلی کی فراہمی کرائی جانی چاہیے، انڈسٹریز کے لیے گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی دستیابی میں اضافہ کیا جائے، بیسک انفراسٹرکچر کی ضرورتوں کو بڑھایا جانا چاہیے۔
بمل انجم کے مطابق لاک ڈاؤن میں ستمبر تا نومبر میں جی ایس ٹی کلیکشن گزشتہ برس کے مقابلے بڑھا ہے۔جو راحت کی خبر ہے۔انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ چیزوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ وسائل کا انتظام کیسے کریں۔وسائل کے انتظام اور وسائل کے مختص کرنے پر بہت کچھ منحصر ہوگا۔
کورونا کے دور بجٹ حکومت کے لیےکسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ ایسی صورتحال میں حکومت سمارٹ بجٹ پیش کرسکتی ہے۔ اچھا بجٹ وہی مانا جاتا ہے۔ جس میں سب کی ترقی کا خیال رکھا جائے۔ لاک ڈاؤن کے دوران بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ لہذا بجٹ میں حکومت کو اس طرف دھیان دینا ہوگا، دوسری طرف، براہ راست ملازمت اور بیرونی حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں غیرملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے کے لیے نئی ریلیف دی جاسکتی ہے۔
کسانوں کو بھی بجٹ سے کافی امیدیں وابستہ ہیں۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ ان کی زمین میں مسلسل گھٹتی جارہی ہے۔ جبکہ کھاد اور بیج مہنگے ہوتے جارہے ہیں۔ اس سے کسان کے سر پر صرف قرض ہے۔ لہذا، حکومت کسانوں کے قرض معاف کرے۔ بجلی کے بل معاف کردیں۔