ETV Bharat / state

'شمس الرحمٰن فاروقی اردو دنیا کی قابل فخر و قابل قدر شخصیت'

مرحوم پروفیسر شمس الرحمٰن فاروقی کی علمی خدمات جاننے کے لیے ای ٹی بھارت کے نمائندہ فضل رحمٰں رحمانی نے دہلی یونیورسٹی کے سینیئر پروفیسر و قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر ارتضیٰ کریم سے خصوصی بات چیت کی۔

'شمس الرحمٰن فاروقی اردو دنیا کا قابل فخر کردار'
'شمس الرحمٰن فاروقی اردو دنیا کا قابل فخر کردار'
author img

By

Published : Dec 25, 2020, 8:43 PM IST

تین درجن سے زائد کتابوں کے مصنف 'شب خون' کے مدیر، معروف نقاد شمس الرحمٰن فاروقی 85 برس کے عمر میں اپنے آبائی وطن اترپردیش کے شہر پریاگ راج میں انتقال کرگئے۔

'شمس الرحمٰن فاروقی اردو دنیا کا قابل فخر کردار'

سوال: شمس الرحمٰن فاروقی نے اردو دنیا میں طویل عرصے تک لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی ہے، کیا آج ان کی جگہ کوئی لے سکتا ہے؟

جواب: شمس الرحمٰن فاروقی اردو دنیا کا شمس تھے۔ اب وہ رحمٰن کی گود میں پہنچ گئے ہیں۔ جہاں تک ان کی جگہ لینے کی بات ہے یہ تو وقت بتائے گا، لیکن جو بات حق و سچ ہے وہ یہ ہے کہ یہ شش جہت قسم کے عالم تھے۔ کسی کا انتقال ہونے پر ہم یہ قول دہراتے ہیں کہ ایک عالِم کا جب انتقال ہوتا ہے تو ایک عالَم کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یہ قول ان پر صد فی صد صادق آتا ہے۔

سوال: وہ بارہا کہا کرتے تھے کہ بنائیں گے ایک نئی دنیا ہم اپنی، تیری دنیا میں اب رہنا نہیں ہے۔ ظاہر ہے اب وہ اس دنیا میں ہیں۔ اس شعر سے وہ کیا مراد لیتے تھے ؟

موت برحق ہے اور ہر کسی کو موت کا مزہ چکھنا ہے تاہم جانے سے پہلے آپ ایسے کارنامے کر کے جائیں کہ قیامت تک لوگ آپ کو یاد رکھیں۔ مرحوم کے خدمات ایسے ہیں جو تا قیامت لوگوں کے دلوں میں محفوظ رہیں گے۔ انہوں نے اردو ادب کی ہمہ جہت خدمات انجام دی ہیں۔ اور اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ انہیں اعزازات و انعامات کسی کی سفارش سے حاصل نہیں ہوئے بلکہ انعامات و اعزازات نے ان کے قدم چومے۔ مصلحت اور منافقت انہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔

جہاں تک تنقید کی بات ہے جب انہوں نے افسانے کی حمایت میں کتاب لکھی تو لوگوں کو یہ اندازہ ہوا کہ انہوں ںے بنی بنائی ڈگر پر نہیں بلکہ اپنا راستہ خود بنایا ہے۔ انہوں نے کبھی پیشہ ورانہ اردو میں کام نہیں کیا بلکہ اعزازی طور پر اردو کے لیے خدمات انجام دیں۔ پیشہ سے پوسٹ ماسٹر تھے اور انگریزی سے ان کا تعلق تھا تاہم اردو سے قلبی محبت تھی۔ جو ان کی تحریروں میں جھلکتی ہے۔

لوگوں سے میں یہ بات کہتا ہوں کہ اردو میں قابل فخر کردار انہیں لوگوں نے انجام دی ہیں جو غیر اردو داں ہیں۔ ایک شخصیت شمس الرحمٰں فاروقی صاحب کی ہے اور دوسری گوپی چند نارنگ کی ہے۔ ان کے بعد اردو دنیا میں ادیبوں کا خلا ہے۔

اپنی مٹی سے انہیں اتنی محبت تھی کہ گذشتہ ایک ماہ سے لوگوں کو پریاگ راج پہنچانے کی ضد کر رہے تھے اور آج جیسے ہی انہیں وہاں پہنچایا گیا، چند گھنٹے کے بعد اپنی سرزمین پر آخری سانس لی۔

سوال: کئی چاند تھے سرِ آسمان ان کا شاہکار ناول ہے۔ اس ناول کے تعلق سے آپ کی کیا رائے ہے؟

اس کے لیے بہت مطالعے کی ضرورت ہے۔ جیسے سارے جہاں دراز اور آگ کا دریا آسانی سے نہیں لکھا جا سکتا ویسے ہی اس اہم ترین تصنیف کی حیثیت ہے۔ اس میں پوری تہذیب و تاریخ انہوں نے انڈیل دی ہے اور گہری ثقافت پنہاں ہے۔ وہ اتنا بڑا ناول ہے کہ اس کی بھی تلخیص لکھی گئی ہے۔ اس میں کوشش کی گئی ہے کہ یہ ایک منفرد تحریر ہو۔ ادبی دنیا میں منفرد خدمات کے لیے ہی انہیں دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پدم شری شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال

ہزروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

تین درجن سے زائد کتابوں کے مصنف 'شب خون' کے مدیر، معروف نقاد شمس الرحمٰن فاروقی 85 برس کے عمر میں اپنے آبائی وطن اترپردیش کے شہر پریاگ راج میں انتقال کرگئے۔

'شمس الرحمٰن فاروقی اردو دنیا کا قابل فخر کردار'

سوال: شمس الرحمٰن فاروقی نے اردو دنیا میں طویل عرصے تک لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی ہے، کیا آج ان کی جگہ کوئی لے سکتا ہے؟

جواب: شمس الرحمٰن فاروقی اردو دنیا کا شمس تھے۔ اب وہ رحمٰن کی گود میں پہنچ گئے ہیں۔ جہاں تک ان کی جگہ لینے کی بات ہے یہ تو وقت بتائے گا، لیکن جو بات حق و سچ ہے وہ یہ ہے کہ یہ شش جہت قسم کے عالم تھے۔ کسی کا انتقال ہونے پر ہم یہ قول دہراتے ہیں کہ ایک عالِم کا جب انتقال ہوتا ہے تو ایک عالَم کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یہ قول ان پر صد فی صد صادق آتا ہے۔

سوال: وہ بارہا کہا کرتے تھے کہ بنائیں گے ایک نئی دنیا ہم اپنی، تیری دنیا میں اب رہنا نہیں ہے۔ ظاہر ہے اب وہ اس دنیا میں ہیں۔ اس شعر سے وہ کیا مراد لیتے تھے ؟

موت برحق ہے اور ہر کسی کو موت کا مزہ چکھنا ہے تاہم جانے سے پہلے آپ ایسے کارنامے کر کے جائیں کہ قیامت تک لوگ آپ کو یاد رکھیں۔ مرحوم کے خدمات ایسے ہیں جو تا قیامت لوگوں کے دلوں میں محفوظ رہیں گے۔ انہوں نے اردو ادب کی ہمہ جہت خدمات انجام دی ہیں۔ اور اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ انہیں اعزازات و انعامات کسی کی سفارش سے حاصل نہیں ہوئے بلکہ انعامات و اعزازات نے ان کے قدم چومے۔ مصلحت اور منافقت انہیں چھو کر بھی نہیں گزری۔

جہاں تک تنقید کی بات ہے جب انہوں نے افسانے کی حمایت میں کتاب لکھی تو لوگوں کو یہ اندازہ ہوا کہ انہوں ںے بنی بنائی ڈگر پر نہیں بلکہ اپنا راستہ خود بنایا ہے۔ انہوں نے کبھی پیشہ ورانہ اردو میں کام نہیں کیا بلکہ اعزازی طور پر اردو کے لیے خدمات انجام دیں۔ پیشہ سے پوسٹ ماسٹر تھے اور انگریزی سے ان کا تعلق تھا تاہم اردو سے قلبی محبت تھی۔ جو ان کی تحریروں میں جھلکتی ہے۔

لوگوں سے میں یہ بات کہتا ہوں کہ اردو میں قابل فخر کردار انہیں لوگوں نے انجام دی ہیں جو غیر اردو داں ہیں۔ ایک شخصیت شمس الرحمٰں فاروقی صاحب کی ہے اور دوسری گوپی چند نارنگ کی ہے۔ ان کے بعد اردو دنیا میں ادیبوں کا خلا ہے۔

اپنی مٹی سے انہیں اتنی محبت تھی کہ گذشتہ ایک ماہ سے لوگوں کو پریاگ راج پہنچانے کی ضد کر رہے تھے اور آج جیسے ہی انہیں وہاں پہنچایا گیا، چند گھنٹے کے بعد اپنی سرزمین پر آخری سانس لی۔

سوال: کئی چاند تھے سرِ آسمان ان کا شاہکار ناول ہے۔ اس ناول کے تعلق سے آپ کی کیا رائے ہے؟

اس کے لیے بہت مطالعے کی ضرورت ہے۔ جیسے سارے جہاں دراز اور آگ کا دریا آسانی سے نہیں لکھا جا سکتا ویسے ہی اس اہم ترین تصنیف کی حیثیت ہے۔ اس میں پوری تہذیب و تاریخ انہوں نے انڈیل دی ہے اور گہری ثقافت پنہاں ہے۔ وہ اتنا بڑا ناول ہے کہ اس کی بھی تلخیص لکھی گئی ہے۔ اس میں کوشش کی گئی ہے کہ یہ ایک منفرد تحریر ہو۔ ادبی دنیا میں منفرد خدمات کے لیے ہی انہیں دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پدم شری شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال

ہزروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.