ETV Bharat / opinion

زعفران جھاڑو نے قومی دارالحکومت سے آپ کو بے دخل کردیا - ANALYSIS

بی جے پی 27 سال بعد دہلی میں برسراقتدار آئی اور بھگوا پارٹی نے کلین سویپ کیا۔ عآپ حکومت ایک دہائی کے بعد ختم ہوگئی۔

زعفران جھاڑو نے قومی دارالحکومت سے عآپ کو بیدخل کردیا
زعفران جھاڑو نے قومی دارالحکومت سے عآپ کو بیدخل کردیا (Etv Bharat)
author img

By Bilal Bhat

Published : Feb 8, 2025, 10:31 PM IST

عام آدمی پارٹی کی جھاڑو نے اپنی تمام فلاحی اسکیموں کو ری سائیکل بن میں پھینک دیا۔ دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج نے عآپ کو ایک چھوٹی پارٹی میں تبدیل کردیا جبکہ کانگریس کو بڑی شکست کا سامنا رہا، اسے ایک حلقہ پر بھی کامیابی نہیں ملی، لیکن کانگریس نے بی جے پی مخالف ووٹوں کو تقسیم کرکے عآپ کے ووٹوں میں بڑی کمی کردی جس کی وجہ سے عآپ کے ووٹ شیئر میں کافی کمی درج کی گئی۔

کانگریس نے سابق وزیراعلیٰ کے بیٹے سندیپ دکشت کو عآپ سربراہ اروند کیجریوال کے خلاف کھڑا کیا، سندیپ دکشت نے صرف 4568 ووٹ حاصل کئے جبکہ کیجریوال کو بی جے پی امیدوار پرویش صاحب سنگھ نے صرف 4089 ووٹ سے ہرادیا۔ کیجریوال کے دو اہم لیفٹیننٹ منیش سسودیا اور ستیندر جین بھی عآپ اور کانگریس کے ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ہار گئے۔ انتخابی مہم کے اختتام پر کانگریس کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے دیئے گئے بیانات کی وجہ سے متعدد حلقوں پر بی جے پی کو بہت کم مارجن سے کامیابی ملی۔

اسی طرح اور بھی کئی عوامل ہیں جنہوں نے عآپ کے خلاف بی جے پی کی مدد کی۔ جیت کے بعد ترقیاتی منصوبوں کا وعدہ کرتے ہوئے بی جے پی نے جارحانہ مہم چلائی۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے کئی اہم لیڈروں کے پولرائزیشن بیانیہ اور عآپ کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کی گئی بیان بازی نے کیجریوال کے ووٹوں کو بگاڑ دیا۔ کئی حلقوں کے رائے دہندگان پہلے سے الجھن کا شکار تھے کہ کانگریس اور اے اے پی کے درمیان کس کی حمایت کی جائے۔ پریشان ووٹر کا بی جے پی ایک فطری انتخاب بن گیا کیونکہ بھگوا پارٹی نعرہ اور منشور ترقی پر مبنی رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان علاقوں میں جہاں بہتر انتخاب نہیں تھا وہاں مسلمانوں نے اس بار بی جے پی کو ووٹ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔

مصطفی آباد ایک بہترین مثال ہے جہاں دو پسندیدہ امیدواروں کے درمیان انتخاب نے بی جے پی کو جیت دلانے میں مدد کی۔ اس حلقے میں 50 فیصد سے زیادہ مسلم آبادی ہے جہاں اے آئی ایم آئی ایم نے عآپ کے ایک اور مسلم امیدوار عدیل احمد خان کے خلاف محمد طاہر حسین کو امیدوار بناتے ہوئے عآپ کے کھیل کو خراب کردیا۔ مجلس کے طاہر کو 33,474 ووٹ ملے جبکہ عآپ کو 67,638 ووٹ ملے تاہم بی جے پی کے موہن سنگھ بشت نے 17,578 کے فرق سے حلقہ پر کامیابی حاصل کرلی۔

ایسی کئی سیٹیں ہیں جہاں بی جے پی اور عآپ کے درمیان جیت کا فرق دوسرے بی جے پی مخالف امیدوار کو حاصل ووٹوں سے کم ہے۔ کئی حلقوں میں، کچھ رائے دہندگان نے کانگریس کو عآپ کے خلاف ایک متبادل انتخاب کے طور پر دیکھا اور بی جے پی مخالف ایک اور کیمپ سمجھتے ہوئے، بھگوا پارٹی کی حمایت کی۔ تیمار پور سیٹ 1,657 ووٹوں کے فرق کے ساتھ بی جے پی کے پاس گئی جبکہ کانگریس کے امیدوار کو 6,101 ووٹ ملے۔

مہرولی میں، بی جے پی امیدوار گجیندر سنگھ یادو کو 35,893 ووٹ ملے اور انہوں نے عآپ امیدوار مہیندر چودھری کو 426 ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ اسی حلقے سے کانگریس امیدوار پشپا سنگھ کو 6,762 ووٹ ملے جبکہ عآپ کو 35,467 ووٹ ملے۔ سنگم وہار ایک اور سیٹ ہے جہاں کانگریس، اے اے پی اور بی جے پی دونوں نے اچھی خاصی تعداد میں ووٹ حاصل کیے لیکن یہ سیٹ بی جے پی امیدوار چندن کمار چودھری کو 344 ووٹوں کے معمولی فرق سے حاصل ہوگئی۔ ترلوک پوری سیٹ اس کی ایک مثال ہے کہ کس طرح بی جے پی امیدوار روی کانت نے 392 ووٹوں کے معمولی فرق سے کامیابی حاصل کی جب عآپ امیدوار کو 57,825 ووٹ ملے اور کانگریس کے امیدوار نے 6,147 ووٹ حاصل کیے۔

کچھ سیٹوں پر ووٹرز نے ووٹوں کو تقسیم ہونے نہیں دیا۔ ایسی ہی ایک سیٹ سیلم پور تھی جس میں 50 فیصد سے زیادہ مسلم آبادی ہے اور یہ سیٹ عآپ نے جیت لی۔ اس حلقہ پر 13 امیدواروں میں سے 10 مسلمان تھے لیکن ووٹ تقسیم نہیں ہوئے۔ نیز، فلاحی اسکیموں نے جنہوں نے پچھلے تین مسلسل انتخابات میں عآپ کے لیے اچھا کام کیا، بی جے پی کے منشور کو ایک بہتر متبادل کے طور پر دیکھا گیا۔ بی جے پی کی جانب سے اپنے اسٹار پرچارکوں کے ذریعے ایک مضبوط مہم چلاتے ہوئے کجریوال کے فلاحی دعووں کو فرضی قرار دیا گیا۔ انتخابی مہم کے دوران ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نایاب سنگھ سینی یمنا کا پانی پی لیتے ہیں، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کجریوال کو چیلنج کیا کہ وہ یمنا میں اس طرح ڈبکی لگائیں جس طرح لاکھوں لوگ مہا کمبھ میں ڈبکی لگارہے ہیں۔

انتخابات کےلئے جاری مہم کے دوران وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کی طرف سے تنخواہ دار افراد کو 12.75 لاکھ روپے تک ٹیکس میں چھوٹ دینے کے اعلان کے چار دن بعد ہوئی پولنگ سے کافی فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ انتخابی مہم کے دوران کیجریوال کے دعوؤں پر مسلسل جوابی بیانات دینے سے بھی بی جے پی کو فائدہ ہوا۔ وکاسپوری کچرے کا معاملہ جسے بی جے پی نے اٹھایا تھا، اس نے بھی ان کے لیے اچھا کام کیا۔

بی جے پی نے اپنے 40 اسٹار کیمپینرز کے ساتھ عآپ کو گھیر لیا اور بری طرح سے شکست دے کر قومی دارالحکومت دہلی میں 27 سال بعد زبردست اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی۔ آخر میں انتخابات کے روز پی ایم مودی کی مہا کمبھ کی ڈپکی اور اس کی سارا دن ٹیلیویژن کے ذریعہ زبردست تشہیر سے بھی بی جے پی کو زبردست فائدہ ہوا اور لوگ بی جے پی کو ووٹ دینے پر آمادہ ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: آج دہلی میں ترقی، وژن اور اعتماد کی جیت ہوئی ہے، مودی - DELHI ELECTIONS 2025

اب سوال یہ ہے کہ کیا کیجریوال کے دہلی اسمبلی میں نہ پہنچنے بعد عآپ زندہ رہ سکتی ہے اور کیا عآپ بحث کے دوران ایوان کے اندر بی جے پی کے ارکان کا مقابلہ کرسکتی ہے، اس کا مشاہدہ کرنا دلچسپ ہوگا۔ الیکشن کے دن تک عآپ کیمپ میں زبردست جوش و خروش دیکھا گیا لیکن پہلے ایگزٹ پولس اور پھر نتائج نے پورے منظر کو تبدیل کردیا۔ یہ دیکھنا بھی کافی دلچسپ ہوگا کہ عآپ اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو دوبارہ حاصل کرنے اور پارٹی کی شہرت کو برقرار رکھنے کے لئے کس طرح حکمت عملی بناتی ہے۔

عام آدمی پارٹی کی جھاڑو نے اپنی تمام فلاحی اسکیموں کو ری سائیکل بن میں پھینک دیا۔ دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج نے عآپ کو ایک چھوٹی پارٹی میں تبدیل کردیا جبکہ کانگریس کو بڑی شکست کا سامنا رہا، اسے ایک حلقہ پر بھی کامیابی نہیں ملی، لیکن کانگریس نے بی جے پی مخالف ووٹوں کو تقسیم کرکے عآپ کے ووٹوں میں بڑی کمی کردی جس کی وجہ سے عآپ کے ووٹ شیئر میں کافی کمی درج کی گئی۔

کانگریس نے سابق وزیراعلیٰ کے بیٹے سندیپ دکشت کو عآپ سربراہ اروند کیجریوال کے خلاف کھڑا کیا، سندیپ دکشت نے صرف 4568 ووٹ حاصل کئے جبکہ کیجریوال کو بی جے پی امیدوار پرویش صاحب سنگھ نے صرف 4089 ووٹ سے ہرادیا۔ کیجریوال کے دو اہم لیفٹیننٹ منیش سسودیا اور ستیندر جین بھی عآپ اور کانگریس کے ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ہار گئے۔ انتخابی مہم کے اختتام پر کانگریس کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے دیئے گئے بیانات کی وجہ سے متعدد حلقوں پر بی جے پی کو بہت کم مارجن سے کامیابی ملی۔

اسی طرح اور بھی کئی عوامل ہیں جنہوں نے عآپ کے خلاف بی جے پی کی مدد کی۔ جیت کے بعد ترقیاتی منصوبوں کا وعدہ کرتے ہوئے بی جے پی نے جارحانہ مہم چلائی۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے کئی اہم لیڈروں کے پولرائزیشن بیانیہ اور عآپ کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کی گئی بیان بازی نے کیجریوال کے ووٹوں کو بگاڑ دیا۔ کئی حلقوں کے رائے دہندگان پہلے سے الجھن کا شکار تھے کہ کانگریس اور اے اے پی کے درمیان کس کی حمایت کی جائے۔ پریشان ووٹر کا بی جے پی ایک فطری انتخاب بن گیا کیونکہ بھگوا پارٹی نعرہ اور منشور ترقی پر مبنی رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان علاقوں میں جہاں بہتر انتخاب نہیں تھا وہاں مسلمانوں نے اس بار بی جے پی کو ووٹ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔

مصطفی آباد ایک بہترین مثال ہے جہاں دو پسندیدہ امیدواروں کے درمیان انتخاب نے بی جے پی کو جیت دلانے میں مدد کی۔ اس حلقے میں 50 فیصد سے زیادہ مسلم آبادی ہے جہاں اے آئی ایم آئی ایم نے عآپ کے ایک اور مسلم امیدوار عدیل احمد خان کے خلاف محمد طاہر حسین کو امیدوار بناتے ہوئے عآپ کے کھیل کو خراب کردیا۔ مجلس کے طاہر کو 33,474 ووٹ ملے جبکہ عآپ کو 67,638 ووٹ ملے تاہم بی جے پی کے موہن سنگھ بشت نے 17,578 کے فرق سے حلقہ پر کامیابی حاصل کرلی۔

ایسی کئی سیٹیں ہیں جہاں بی جے پی اور عآپ کے درمیان جیت کا فرق دوسرے بی جے پی مخالف امیدوار کو حاصل ووٹوں سے کم ہے۔ کئی حلقوں میں، کچھ رائے دہندگان نے کانگریس کو عآپ کے خلاف ایک متبادل انتخاب کے طور پر دیکھا اور بی جے پی مخالف ایک اور کیمپ سمجھتے ہوئے، بھگوا پارٹی کی حمایت کی۔ تیمار پور سیٹ 1,657 ووٹوں کے فرق کے ساتھ بی جے پی کے پاس گئی جبکہ کانگریس کے امیدوار کو 6,101 ووٹ ملے۔

مہرولی میں، بی جے پی امیدوار گجیندر سنگھ یادو کو 35,893 ووٹ ملے اور انہوں نے عآپ امیدوار مہیندر چودھری کو 426 ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ اسی حلقے سے کانگریس امیدوار پشپا سنگھ کو 6,762 ووٹ ملے جبکہ عآپ کو 35,467 ووٹ ملے۔ سنگم وہار ایک اور سیٹ ہے جہاں کانگریس، اے اے پی اور بی جے پی دونوں نے اچھی خاصی تعداد میں ووٹ حاصل کیے لیکن یہ سیٹ بی جے پی امیدوار چندن کمار چودھری کو 344 ووٹوں کے معمولی فرق سے حاصل ہوگئی۔ ترلوک پوری سیٹ اس کی ایک مثال ہے کہ کس طرح بی جے پی امیدوار روی کانت نے 392 ووٹوں کے معمولی فرق سے کامیابی حاصل کی جب عآپ امیدوار کو 57,825 ووٹ ملے اور کانگریس کے امیدوار نے 6,147 ووٹ حاصل کیے۔

کچھ سیٹوں پر ووٹرز نے ووٹوں کو تقسیم ہونے نہیں دیا۔ ایسی ہی ایک سیٹ سیلم پور تھی جس میں 50 فیصد سے زیادہ مسلم آبادی ہے اور یہ سیٹ عآپ نے جیت لی۔ اس حلقہ پر 13 امیدواروں میں سے 10 مسلمان تھے لیکن ووٹ تقسیم نہیں ہوئے۔ نیز، فلاحی اسکیموں نے جنہوں نے پچھلے تین مسلسل انتخابات میں عآپ کے لیے اچھا کام کیا، بی جے پی کے منشور کو ایک بہتر متبادل کے طور پر دیکھا گیا۔ بی جے پی کی جانب سے اپنے اسٹار پرچارکوں کے ذریعے ایک مضبوط مہم چلاتے ہوئے کجریوال کے فلاحی دعووں کو فرضی قرار دیا گیا۔ انتخابی مہم کے دوران ہریانہ کے وزیر اعلیٰ نایاب سنگھ سینی یمنا کا پانی پی لیتے ہیں، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کجریوال کو چیلنج کیا کہ وہ یمنا میں اس طرح ڈبکی لگائیں جس طرح لاکھوں لوگ مہا کمبھ میں ڈبکی لگارہے ہیں۔

انتخابات کےلئے جاری مہم کے دوران وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کی طرف سے تنخواہ دار افراد کو 12.75 لاکھ روپے تک ٹیکس میں چھوٹ دینے کے اعلان کے چار دن بعد ہوئی پولنگ سے کافی فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ انتخابی مہم کے دوران کیجریوال کے دعوؤں پر مسلسل جوابی بیانات دینے سے بھی بی جے پی کو فائدہ ہوا۔ وکاسپوری کچرے کا معاملہ جسے بی جے پی نے اٹھایا تھا، اس نے بھی ان کے لیے اچھا کام کیا۔

بی جے پی نے اپنے 40 اسٹار کیمپینرز کے ساتھ عآپ کو گھیر لیا اور بری طرح سے شکست دے کر قومی دارالحکومت دہلی میں 27 سال بعد زبردست اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی۔ آخر میں انتخابات کے روز پی ایم مودی کی مہا کمبھ کی ڈپکی اور اس کی سارا دن ٹیلیویژن کے ذریعہ زبردست تشہیر سے بھی بی جے پی کو زبردست فائدہ ہوا اور لوگ بی جے پی کو ووٹ دینے پر آمادہ ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: آج دہلی میں ترقی، وژن اور اعتماد کی جیت ہوئی ہے، مودی - DELHI ELECTIONS 2025

اب سوال یہ ہے کہ کیا کیجریوال کے دہلی اسمبلی میں نہ پہنچنے بعد عآپ زندہ رہ سکتی ہے اور کیا عآپ بحث کے دوران ایوان کے اندر بی جے پی کے ارکان کا مقابلہ کرسکتی ہے، اس کا مشاہدہ کرنا دلچسپ ہوگا۔ الیکشن کے دن تک عآپ کیمپ میں زبردست جوش و خروش دیکھا گیا لیکن پہلے ایگزٹ پولس اور پھر نتائج نے پورے منظر کو تبدیل کردیا۔ یہ دیکھنا بھی کافی دلچسپ ہوگا کہ عآپ اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو دوبارہ حاصل کرنے اور پارٹی کی شہرت کو برقرار رکھنے کے لئے کس طرح حکمت عملی بناتی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.