قومی دارالحکومت دہلی ملک کے ممتاز ماہر قانونیات اور قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین پروفیسر طاہرمحمود نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں ہونے والے تشدّد کو انتہائی موجب تشویش اور قوم کے لیے باعث ندامت قرار دیا۔
قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین پروفیسر طاہرمحمود نے کہا کہ ملک کی اعلیٰ تعلیم گاہوں کو جو قانونی طور پر مرکز کے زیر اختیار ہیں، انہیں ہر طرح کا ضروری تحفّظ فراہم کرانا حکومت ہند کا مقدّس دستوری فریضہ ہے۔
پروفیسر محمود نے یو این آئی سے اتوار کی شام بات کرتے ہوئے کہا کہ تشدّد ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے اور ملک کے اس مؤقّر ادارے میں ایسا واقعہ پیش آنا ملک اور قوم کے لیے انتہائی باعث ندامت کا ہے۔
جے این یو اور دیگر ان سبھی اعلیٰ تعلیم گاہوں کو جو قانونی طور پر مرکز کے زیر اختیارہیں، انہیں ہر طرح کا ضروری تحفّظ فراہم کرانا حکومت ہند کا مقدّس دستوری فریضہ ہے۔
پروفیسر محمود نے بتایا کہ دستور ہند کے نفاذ کے وقت بنارس ہندو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو صراحتاً دستور کے آٹھویں ضمیمے میں رکھا گیا تھا، جومرکز کے اختیارات اور ذمّے داریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ملک بھر میں تقریباً پچاس مرکزی یونیورسٹیز ہیں جن میں دہلی کی جامعہ ملّیہ اسلامیہ اور جواہر لال یونیورسٹی قومی اہمیّت کے ادارے ہیں۔
انہوں نے کہا ان اداروں میں اعلیٰ تعلیمی معیار قائم رکھنا اور امن و امان کا تحفّظ مرکزی حکومت کی ترجیحات میں ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دستور کی دفعہ 38 حکومت کو تمام قومی اداروں میں 'سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف کے نظام کو مؤثر طریقے سے محفوظ رکھنے'کا پابند کرتی ہے اور اس لحاظ سے علی گڑھ، جامعہ اور جے این یو میں موجودہ بے اطمینانی کی کیفیت حکومت کی مخصوص توجّہ اور مثبت اقدامات کی متقاضی ہے۔