ETV Bharat / state

دہلی اقلیتی کمیشن نے دہلی فسادات کی رپورٹ حکومت کو پیش کی

author img

By

Published : Jul 16, 2020, 10:20 PM IST

دہلی کے اقلیتی کمیشن کی دہلی فسادات سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ میں حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔مدت کی تکمیل سے کچھ روز قبل دہلی اقلیتی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے ایک ایسی رپورٹ پیش کی جو پولیس کے ذریعہ جاری تحقیقات کے متناقض ہے۔

دہلی فسادات کا بڑا انکشاف
دہلی فسادات کا بڑا انکشاف

9 مارچ، 2020 کو دہلی اقلیتی کمیشن نے ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ، سپریم کورٹ آف انڈیا،کی سربراہی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے تحت کمیٹی کو 23 سے 27فروری 2020 کے دوران شمالی مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں ہونے والے تشدد کی تحقیق کرنے کی ذمے داری دی گئی تھی۔

کمیٹی نے اپنا کام شروع ہی کیا تھا کہ کووڈ 19 لاک ڈاؤن نے اس کے کام کو شدید متاثر کیا۔ پھرکمیٹی نے جون 2020 میں لاک ڈاؤن میں تخفیف کے بعداپنا کام دوبارہ شروع کیا۔

کمیٹی نے تشدد متاثرین کو معلومات دینے کی دعوت دی اور شمال مشرقی دہلی کے مختلف مقامات پر متاثرہ گواہوں سے بیانات اور دستاویزات حاصل کیے اور مذہبی مقامات کو ہونے والے نقصانات کا موقع پر سروے کیا۔ کمیٹی اور دہلی اقلیتی کمیشن دونوں نے دہلی پولیس سے ایف آئی آرز کی کاپیاں اور گرفتاریوں وغیرہ کے بارے میں معلومات طلب کیں لیکن پولیس نے کسی کو بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ مجموعی صورتحال پر غور کرتے ہوئے کمیشن نے کمیٹی کی میعاد 30 جون 2020 تک بڑھا دی۔

دہلی اقلیتی کمیشن

کمیٹی نے 27 جون 2020 کو اپنی 130 صفحات پر مشتمل رپورٹ کمیشن کو پیش کردی۔ کمیشن نے رپورٹ پر غور کیا اور اسے قبول کرلیا۔ کمیشن کی جانب سے یہ رپورٹ لیفٹیننٹ گورنر دہلی اور وزیر اعلی دہلی کو مزید کارروائی کی درخواست کے ساتھ تین روز قبل پیش کر دی ہے۔ دہلی کے تمام وزراء اور اسپیکر دہلی قانون ساز اسمبلی کو بھی اس رپورٹ کی کاپی پیش کر دی گئی ہے۔

رپورٹ کی کاپی یہاں آن لائن بھی دستیاب ہے:

https://archive.org/details/DMC-delhi-riots-fact-finding-2020

رپورٹ کے اہم نتائج اور سفارشات درج ذیل ہیں:

1: تشدد پرمسلسل اکسانا

دسمبر 2019 سے فروری 2020 تک دہلی کے اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران بی جے پی رہنماؤں نے سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے لیے متعدد تقاریر کیں۔ رپورٹ میں ان تقاریر کی تفصیلات ریکارڈ کی گئیں ہیں۔

دہلی اقلیتی کمیشن

23 فروری 2020 کو موج پور میں کپل مشرا کی اشتعال انگیز تقریر کے فورا بعد شمال مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں تشدد بھڑک اٹھا۔ اس تقریر میں انہوں نے شمال مشرقی دہلی کے جعفر آباد علاقے میں مظاہرین کو زبردستی ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ مظاہرین اور عوام کو یہ دھمکیاں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر پولیس نارتھ ایسٹ شری وید پرکاش سوریہ کی موجودگی میں دی گئی تھیں۔

2: منصوبہ بند، منظم اور نشانہ بند تشدد

مسلح ہجوم شمالی مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں گیا، افراد پر حملہ کیا، املاک اور کاروبار کو لوٹا اور جلایا۔ ہجوم نے'جے شری رام'، 'ہر ہر مودی'، 'مودی جی، کاٹ دو ان ملوں کو'، 'آج تمھیں آزادی دیں گے' وغیرہ جیسے نعرے لگاتے ہوئے مسلم افراد، گھروں، دکانوں، گاڑیوں اور مساجد وغیرہ املاک پر چن چن کر حملہ کیا۔

گواہوں نے بتایا کہ ہجوم میں بڑی تعداد میں بیرونی افراد شامل تھے لیکن ان میں کچھ مقامی افراد بھی شامل تھے جن کو متاثرین پہچان سکتے ہیں۔ ہجوم لاٹھیوں، لوہے کی سلاخوں، آنسو گیس کے گولوں، گیس سلنڈروں اور آتشیں اسلحوں سے لیس تھے۔

شمال مشرقی دہلی کے متعدد علاقوں میں، مسلمانوں کی املاک کو لوٹ لیا گیا، جلایا گیا اور مکمل طور پر تباہ کردیا گیا۔ حملیاس حد تک منصوبہ بند تھے کہ ان جہاں مالکان ہندو تھے لیکن جائیدادیں مسلمانوں کو کرایے پر دی گئیں تھیں، ان عمارتوں کو بچالیا گیا لیکن غیر منقولہ املاک کو لوٹ لیا گیا یا احاطے کے باہر لا کرجلا دیا گیا۔متاثرین کی ہلاکتوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ تشدد کسی 'فساد' کی طرح بے ساختہ نہیں تھا بلکہ وہ منصوبہ بند، منظم اور نشانہ بند تھا۔

3: مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا

اس رپورٹ میں 11 مساجد، پانچ مدرسوں، ایک درگاہ اور ایک قبرستان کی تفصیلات دی گئی ہیں جن پر تشدد کے دوران حملہ ہوا تھا اور جن کو نقصان پہنچا یا گیاتھا۔ حملہ آوروں نے خاص طور پر مسلم عبادت گاہوں اوراسکولوں یعنی مساجد اور مدرسوں کے ساتھ قرآن مجید کی کاپیوں جیسی مذہبی علامتوں کو توڑ ڈالا اور جلادیا۔ فسادات کے دوران مسلم پڑوسیوں نے مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر مسلم عبادت گاہوں کی حفاظت کی۔ بڑی تعداد میں علاقے کے مسلمان بے گھر ہوگئے ہیں۔ کووڈ۔19 لاک ڈاؤن کی وجہ سے متاثرین ان امدادی کیمپوں سے بھی نکال دیے گئے جہاں ان بے گھر افراد نے پناہ لی تھی۔

پولیس کا کردار

تحقیقاتی کمیٹی کے ذریعہ جمع کردہ متعدد ہلاکتیں تشدد کے دوران پولیس کی بے عملی کی گواہی دیتی ہیں حالانکہ ان کے سامنے تشدد پھیل رہا تھا۔ نیز ایمرجنسی کال نمبر پر بار بار فون کرنے کے باوجود پولیس موقع پر نہیں پہنچی۔ ہلاکتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ کس طرح پولیس علاقے میں گشت کررہی تھی لیکن جب مدد طلب کی گئی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ ان کو کسی کام کا آرڈر نہیں ملا ہے۔ پولیس نے غیرقانونی جماو?ڑوں کو منتشر کرنے، یا تشدد کرنے والے افراد کو گرفتار کرنے اور ان کو نظربند کرنے کے اقدامات کرنے کے اختیار کوبھی استعمال نہیں کیا۔

تشدد کا نشانہ بننے والوں کی متعدد ہلاکتوں سے واضح ہوتا ہے کہ ایف آئی آر درج کرنے میں یا توتاخیر ہوئی ہے یا ان پر کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ مزید یہ کہ شکایات کی سنگین نوعیت کے باوجود پولیس نے درج کی گئی ایف آئی آر پر عمل نہیں کیا۔ کچھ معاملات میں پولیس اس وقت تک ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتی رہی جب تک کہ شکایت کنندہ نے نامزد ملزمین کے نام اپنی شکایت سینہیں خارج کردیئے۔ کچھ معاملات میں شکایات کو پہلے ہی درج کی گئی ایف آئی آرز میں غلط طور پر نتھی کردیا گیا۔

ہلاکتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ کچھ معاملات میں پولیس ملوث تھی اور اس نے حملوں کو ہونے دیا۔ جہاں کچھ پولیس عہدیداروں نے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش بھی کی وہاں متاثرین کے مطابق پولیس افسروں نے اپنے ساتھیوں کو روک دیا اور بھیڑ کو منتشر کرنے کی کوشش کرنے والے پولیس والوں سے کہا کہ 'انہیں مت روکو'۔ کچھ معاملات میں، پولیس محض تماشائی بن کر کھڑی رہی جبکہ ہجوم لوٹ مار، جلانے اور تشدد میں مصروف تھا۔ کچھ دوسرے معاملات میں پولیس نے واضح طور پر مجرموں کو یہ کہتے ہوئے بڑھاوا دیا کہ 'جو چاہے کرلو'۔ کچھ ہلاکتوں میں بتایا گیا ہے کہ پولیس اور نیم فوجی افسران نے حملہ ختم ہونے کے بعد مجرموں کو بحفاظت علاقے سے باہر منتقل کیا جبکہ کچھ معاملات میں، پولیس نے متاثرین کو بھی بحفاظت باہرنکالا۔

کچھ ہلاکتوں میں، پولیس افسران کے خلاف جسمانی زیادتی اور بدسلوکی سمیت براہ راست تشدد میں ملوث ہونے کے واضح الزامات لگائے گئے ہیں اور کچھ معاملات میں شکایت کرنے والے متاثرین کو ہی گرفتار کرلیا گیا ہے، خاص طور پر ان حالات میں جہاں انہوں نے نامزد افراد کے خلاف شکایت درج کروائی یا اس کی کوشش کی۔ نامزد ملزمین کے خلاف شکایات کی مناسب تحقیقات کے بغیر چارج شیٹ داخل کرنے سے جہاں تفتیش کی غیر جانبداری اور مقصدیت کے بارے میں شبہہ پیدا ہوتی ہے وہیں دہلی پولیس کے ذریعے مجموعی طور سے تشدد کے بارے میں ایک نیا بیانیہ پیش کرنے کی کوشش کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

5. خواتین پر اثر

ہلاکتیں بتاتی ہیں کہ مسلم خواتین پر ان کی مذہبی شناخت کی بنا پر حملہ کیا گیا تھا۔ ان کے حجاب اور برقعے اتار دیئے گئے تھے۔ خواتین کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس فورسز اور پرتشدد ہجوم نے احتجاجی مقامات پر حملہ کیا، خواتین پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی اور ہجوم کے ذریعے ان پر حملہ ہوا۔ خواتین نے بھیڑ کے ذریعے تیزابی حملوں اور جنسی تشدد کی دھمکیوں کی مثالیں بھی بیان کیں۔

پولیس نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے لیے لفظ 'آزادی' کے نعرے کااستعمال کیا۔ اس میں کم از کم ایک واقعہ ایسا بھی شامل ہے جس میں خواتین مظاہرین کے سامنے پولیس افسروں نے اپنے جنسی اعضا دکھائے۔ زبانی زیادتیاں بھی فطری طور پر جنسی اور فرقہ وارانہ تھی۔ یہ واضح ہے کہ پولیس مدد کے لئے آگے نہیں آئی اور متعدد واقعات میں خواتین کے خلاف تشدد میں ملوث رہی۔

6: معاوضہ

امن و امان قائم رکھنے میں حکام کی ناکامی کی وجہ سے تشدد میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے سرکاری ملازموں اور عام شہریوں کی ہلاکت کے معاملات میں معاوضے کی رقم کے تعین میں شدید اختلاف ہے۔ سرکاری ملازمین کی اموات کی حالت میں بڑی مقدار میں معاوضہ دیا جارہا ہے جبکہ لوٹ مار، جلانے، املاک اور مذہبی مقامات کو ہونے والے نقصانات کے لیے یا تو معاوضے کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے یا بہت کم رقم ادا کی گئی ہے۔ تشدد کے چار ماہ گزر جانے کے بعد بھی، متعدد معاملات میں نقصانات کا توثیقی عمل مکمل نہیں ہوا ہے۔ بہت سے معاملات میں توثیق کے بعد بھی یا تو کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا ہے یا 'عبوری معاوضہ' کے نام پر بہت کم رقم ادا کی گئی ہے۔

7: سفارشات

1: حکومت کو خصوصی تشکیل کے ذریعے ایک پانچ رکنی آزاد کمیٹی تشکیل دینا چاہئے۔ اس کمیٹی کی سربراہی ہائیکورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی ہوگی، اور اس میں 1 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنزجج، 2 ایک سینئر ایڈوکیٹ، 3 ایک ریٹائرڈ پولیس اہلکار، جو ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدے سے کم نہ ہو اور جس نیدہلی پولیس میں خدمات انجام نہ دی ہوں، اور 4 اچھی شہرت رکھنے والے ایک سول سوسائٹی کا رکن بطور ممبر ہوں گے۔ سربراہ اور ممبروں کے انتخاب میں امیدواروں کی مناسبیت کا اندازہ مندرجہ ذیل معیارات کے مطابق کیا جانا چاہیے : (i) ذاتی دیانتداری کا عمدہ ریکارڈ، (ii) انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے ثابت عزمی، اور (iii) قانون اور اس سے متعلق کاروائیوں کا علم۔

2: کمیٹی کا مینڈیٹ کثیرالجہتی ہونا چاہئے اور اس میں یہ باتیں شامل ہونی چاہیے:

(i) تمام متعلقہ معاملات میں ایف آئی آر کی مناسب اور فوری رجسٹریشن کو یقینی بنائے جہاں شکایات کو ابھی تک ایف آئی آر میں تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔

(ii) تعزیرات ہند کے سیکشن 164 کے تحت متاثرین کے بیانات کی ریکارڈنگ کو یقینی بنائے

(iii) دہلی گواہ پروٹیکشن اسکیم کے مطابق گواہ اورمتاثرین کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

(iv) پولیس کے ذریعے دائرکردہ چارج شیٹوں کی روشنی میں ان کیسوں کا جائزہ لے جن کو چھوڑ دیا گیا ہے۔

(v) دہلی پولیس کے ذریعہ تشدد ہونے دینے یا اپنی ڈیوٹی سے دستبرداری کی تحقیقات، جس میں کمانڈ کی ذمہ داری بھی شامل ہے، اور ساتھ ہی ساتھ تشدد کی براہ راست کارروائیوں میں ملوث ہونے اور جنسی تشدد کی تحقیقات بھی شامل ہے۔ یہ شواہد رپورٹ، تصویروں، ویڈیوز اور دوسری دستاویزات کے ساتھ عدالت میں پیش کیے جائیں۔

(vi)اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ معاوضہ تمام متاثرین کو منصفانہ اور وقتی طور پر ادا کیا جائے۔

(vii) ہنگاموں سے متاثر افراد کے لئے دہلی حکومت کی امدادی اسکیم کا جائزہ لیا جائے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کیا ہر زمرے کے تحت معاوضے کی رقم نقصان، چوٹ اور نقصان کی مقدار کے متناسب ہے اور اگر ضرورت ہو تو امدادی اسکیم کا نیا خاکہ تحریری طور سے حکومت کو پیش کیا جائے۔

3: کلیمز کمشنر کی مدد کے لیے 2۔ 3 ماہرین کی ایک ٹیم مقرر کی جائے جو شاکی افراد کو مدد دلانے میں کمشنر کی مدد کرے۔

4: متاثرہ افراد کو قانونی خدمات کی فراہمی کے لئے دہلی اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی کے ساتھ مل کر، فوجداری قانون کے عمل میں قابلیت رکھنے والے 5-10 تجربہ کار ٹرائل کورٹ کے وکیلوں کی ایک ٹیم تشکیل دے۔ ٹیم میں صنفی توازن کو یقینی بنایا جائے اور یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ عوام اور یا سرکاری عہدیداروں کے خلاف جنسی تشدد کی شکایات درج کرنے سمیت خواتین اور بچوں کے متاثرین کی مدد کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں۔ نشانہ بننے والی خواتین کومؤثر قانونی نمائندگی کا یقین دلایا جائے نیز جنسی تشدد کے مقدمات کی پیروی کرنے والوں کو ان کی پسند کے وکیل کی شمولیت کے لئے قانونی مدد دی جائے۔

5: سیاسی رہنماؤں کی تقاریر اور نعروں کے شمالی مشرقی ضلع میں بھڑکنے والیتشدد سے براہ راست اور قریبی تعلق کے بارے میں ہائیکورٹ کی مدد کے لیے کسی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے قانونی رائے حاصل کی جائے۔

6: اس امر کو یقینی بنانے کے لئے خصوصی اقدامات کیے جائیں کہ کسی بھی شخص نے جس نے کسی گروہ کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کیا ہو اس کو ان معاملات میں سرکاری وکیل کے عہدے پر مقرر نہیں کیا جائے۔

7: سرکاری وکیلوں کے منصفانہ، غیر جانبدارانہ انداز میں اور انصاف کے مفاد میں کام کرنے کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کئے جائیں۔

8: موجودہ تحقیقاتی رپورٹ کے نتائج کو بطور بنیاد استعمال کرکے مذہبی عبادت گاہوں،مدرسوں، قبرستانوں اور مزارات کو ہونے والے نقصانات کی قیمت کا تعین کیا جائے اور ان کا معاوضہ دیا جائے ۔واضح رہے کہ تین سالہ دور مدت کار ختم ہونے اور دفتر چھوڑنے سے ایک دن پہلے، دہلی اقلیتی کمیشن نے جمعرات کو ایک پریس میٹنگ منعقد کرکے چار رپورٹیں جاری کیں جو تین دن قبل دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال، لیفٹیننٹ گورنر انیل بیجل، ڈائی، نائب وزیر اعلی منیش سسودیا اور دہلی کے تمام وزراء اور دہلی قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر کو پیش کی گئیں۔

یہ چار رپورٹیں یہ ہیں:

1 شمال مشرقی علاقوں میں مسلم خواتین کے بارے میں رپورٹ۔

2 سکھ فسادات کے متاثرین کی موجودہ صورت حال سے سے متعلق رپورٹ

3 شمال مشرقی ضلع میں ہونے والے فسادات کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ

4 دہلی اقلیتی کمیشن کی سالانہ رپورٹ برائے 2019-2020

9 مارچ، 2020 کو دہلی اقلیتی کمیشن نے ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ، سپریم کورٹ آف انڈیا،کی سربراہی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے تحت کمیٹی کو 23 سے 27فروری 2020 کے دوران شمالی مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں ہونے والے تشدد کی تحقیق کرنے کی ذمے داری دی گئی تھی۔

کمیٹی نے اپنا کام شروع ہی کیا تھا کہ کووڈ 19 لاک ڈاؤن نے اس کے کام کو شدید متاثر کیا۔ پھرکمیٹی نے جون 2020 میں لاک ڈاؤن میں تخفیف کے بعداپنا کام دوبارہ شروع کیا۔

کمیٹی نے تشدد متاثرین کو معلومات دینے کی دعوت دی اور شمال مشرقی دہلی کے مختلف مقامات پر متاثرہ گواہوں سے بیانات اور دستاویزات حاصل کیے اور مذہبی مقامات کو ہونے والے نقصانات کا موقع پر سروے کیا۔ کمیٹی اور دہلی اقلیتی کمیشن دونوں نے دہلی پولیس سے ایف آئی آرز کی کاپیاں اور گرفتاریوں وغیرہ کے بارے میں معلومات طلب کیں لیکن پولیس نے کسی کو بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ مجموعی صورتحال پر غور کرتے ہوئے کمیشن نے کمیٹی کی میعاد 30 جون 2020 تک بڑھا دی۔

دہلی اقلیتی کمیشن

کمیٹی نے 27 جون 2020 کو اپنی 130 صفحات پر مشتمل رپورٹ کمیشن کو پیش کردی۔ کمیشن نے رپورٹ پر غور کیا اور اسے قبول کرلیا۔ کمیشن کی جانب سے یہ رپورٹ لیفٹیننٹ گورنر دہلی اور وزیر اعلی دہلی کو مزید کارروائی کی درخواست کے ساتھ تین روز قبل پیش کر دی ہے۔ دہلی کے تمام وزراء اور اسپیکر دہلی قانون ساز اسمبلی کو بھی اس رپورٹ کی کاپی پیش کر دی گئی ہے۔

رپورٹ کی کاپی یہاں آن لائن بھی دستیاب ہے:

https://archive.org/details/DMC-delhi-riots-fact-finding-2020

رپورٹ کے اہم نتائج اور سفارشات درج ذیل ہیں:

1: تشدد پرمسلسل اکسانا

دسمبر 2019 سے فروری 2020 تک دہلی کے اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران بی جے پی رہنماؤں نے سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے لیے متعدد تقاریر کیں۔ رپورٹ میں ان تقاریر کی تفصیلات ریکارڈ کی گئیں ہیں۔

دہلی اقلیتی کمیشن

23 فروری 2020 کو موج پور میں کپل مشرا کی اشتعال انگیز تقریر کے فورا بعد شمال مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں تشدد بھڑک اٹھا۔ اس تقریر میں انہوں نے شمال مشرقی دہلی کے جعفر آباد علاقے میں مظاہرین کو زبردستی ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ مظاہرین اور عوام کو یہ دھمکیاں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر پولیس نارتھ ایسٹ شری وید پرکاش سوریہ کی موجودگی میں دی گئی تھیں۔

2: منصوبہ بند، منظم اور نشانہ بند تشدد

مسلح ہجوم شمالی مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں گیا، افراد پر حملہ کیا، املاک اور کاروبار کو لوٹا اور جلایا۔ ہجوم نے'جے شری رام'، 'ہر ہر مودی'، 'مودی جی، کاٹ دو ان ملوں کو'، 'آج تمھیں آزادی دیں گے' وغیرہ جیسے نعرے لگاتے ہوئے مسلم افراد، گھروں، دکانوں، گاڑیوں اور مساجد وغیرہ املاک پر چن چن کر حملہ کیا۔

گواہوں نے بتایا کہ ہجوم میں بڑی تعداد میں بیرونی افراد شامل تھے لیکن ان میں کچھ مقامی افراد بھی شامل تھے جن کو متاثرین پہچان سکتے ہیں۔ ہجوم لاٹھیوں، لوہے کی سلاخوں، آنسو گیس کے گولوں، گیس سلنڈروں اور آتشیں اسلحوں سے لیس تھے۔

شمال مشرقی دہلی کے متعدد علاقوں میں، مسلمانوں کی املاک کو لوٹ لیا گیا، جلایا گیا اور مکمل طور پر تباہ کردیا گیا۔ حملیاس حد تک منصوبہ بند تھے کہ ان جہاں مالکان ہندو تھے لیکن جائیدادیں مسلمانوں کو کرایے پر دی گئیں تھیں، ان عمارتوں کو بچالیا گیا لیکن غیر منقولہ املاک کو لوٹ لیا گیا یا احاطے کے باہر لا کرجلا دیا گیا۔متاثرین کی ہلاکتوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ تشدد کسی 'فساد' کی طرح بے ساختہ نہیں تھا بلکہ وہ منصوبہ بند، منظم اور نشانہ بند تھا۔

3: مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا

اس رپورٹ میں 11 مساجد، پانچ مدرسوں، ایک درگاہ اور ایک قبرستان کی تفصیلات دی گئی ہیں جن پر تشدد کے دوران حملہ ہوا تھا اور جن کو نقصان پہنچا یا گیاتھا۔ حملہ آوروں نے خاص طور پر مسلم عبادت گاہوں اوراسکولوں یعنی مساجد اور مدرسوں کے ساتھ قرآن مجید کی کاپیوں جیسی مذہبی علامتوں کو توڑ ڈالا اور جلادیا۔ فسادات کے دوران مسلم پڑوسیوں نے مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر مسلم عبادت گاہوں کی حفاظت کی۔ بڑی تعداد میں علاقے کے مسلمان بے گھر ہوگئے ہیں۔ کووڈ۔19 لاک ڈاؤن کی وجہ سے متاثرین ان امدادی کیمپوں سے بھی نکال دیے گئے جہاں ان بے گھر افراد نے پناہ لی تھی۔

پولیس کا کردار

تحقیقاتی کمیٹی کے ذریعہ جمع کردہ متعدد ہلاکتیں تشدد کے دوران پولیس کی بے عملی کی گواہی دیتی ہیں حالانکہ ان کے سامنے تشدد پھیل رہا تھا۔ نیز ایمرجنسی کال نمبر پر بار بار فون کرنے کے باوجود پولیس موقع پر نہیں پہنچی۔ ہلاکتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ کس طرح پولیس علاقے میں گشت کررہی تھی لیکن جب مدد طلب کی گئی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ ان کو کسی کام کا آرڈر نہیں ملا ہے۔ پولیس نے غیرقانونی جماو?ڑوں کو منتشر کرنے، یا تشدد کرنے والے افراد کو گرفتار کرنے اور ان کو نظربند کرنے کے اقدامات کرنے کے اختیار کوبھی استعمال نہیں کیا۔

تشدد کا نشانہ بننے والوں کی متعدد ہلاکتوں سے واضح ہوتا ہے کہ ایف آئی آر درج کرنے میں یا توتاخیر ہوئی ہے یا ان پر کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ مزید یہ کہ شکایات کی سنگین نوعیت کے باوجود پولیس نے درج کی گئی ایف آئی آر پر عمل نہیں کیا۔ کچھ معاملات میں پولیس اس وقت تک ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتی رہی جب تک کہ شکایت کنندہ نے نامزد ملزمین کے نام اپنی شکایت سینہیں خارج کردیئے۔ کچھ معاملات میں شکایات کو پہلے ہی درج کی گئی ایف آئی آرز میں غلط طور پر نتھی کردیا گیا۔

ہلاکتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ کچھ معاملات میں پولیس ملوث تھی اور اس نے حملوں کو ہونے دیا۔ جہاں کچھ پولیس عہدیداروں نے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش بھی کی وہاں متاثرین کے مطابق پولیس افسروں نے اپنے ساتھیوں کو روک دیا اور بھیڑ کو منتشر کرنے کی کوشش کرنے والے پولیس والوں سے کہا کہ 'انہیں مت روکو'۔ کچھ معاملات میں، پولیس محض تماشائی بن کر کھڑی رہی جبکہ ہجوم لوٹ مار، جلانے اور تشدد میں مصروف تھا۔ کچھ دوسرے معاملات میں پولیس نے واضح طور پر مجرموں کو یہ کہتے ہوئے بڑھاوا دیا کہ 'جو چاہے کرلو'۔ کچھ ہلاکتوں میں بتایا گیا ہے کہ پولیس اور نیم فوجی افسران نے حملہ ختم ہونے کے بعد مجرموں کو بحفاظت علاقے سے باہر منتقل کیا جبکہ کچھ معاملات میں، پولیس نے متاثرین کو بھی بحفاظت باہرنکالا۔

کچھ ہلاکتوں میں، پولیس افسران کے خلاف جسمانی زیادتی اور بدسلوکی سمیت براہ راست تشدد میں ملوث ہونے کے واضح الزامات لگائے گئے ہیں اور کچھ معاملات میں شکایت کرنے والے متاثرین کو ہی گرفتار کرلیا گیا ہے، خاص طور پر ان حالات میں جہاں انہوں نے نامزد افراد کے خلاف شکایت درج کروائی یا اس کی کوشش کی۔ نامزد ملزمین کے خلاف شکایات کی مناسب تحقیقات کے بغیر چارج شیٹ داخل کرنے سے جہاں تفتیش کی غیر جانبداری اور مقصدیت کے بارے میں شبہہ پیدا ہوتی ہے وہیں دہلی پولیس کے ذریعے مجموعی طور سے تشدد کے بارے میں ایک نیا بیانیہ پیش کرنے کی کوشش کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

5. خواتین پر اثر

ہلاکتیں بتاتی ہیں کہ مسلم خواتین پر ان کی مذہبی شناخت کی بنا پر حملہ کیا گیا تھا۔ ان کے حجاب اور برقعے اتار دیئے گئے تھے۔ خواتین کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس فورسز اور پرتشدد ہجوم نے احتجاجی مقامات پر حملہ کیا، خواتین پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی اور ہجوم کے ذریعے ان پر حملہ ہوا۔ خواتین نے بھیڑ کے ذریعے تیزابی حملوں اور جنسی تشدد کی دھمکیوں کی مثالیں بھی بیان کیں۔

پولیس نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے لیے لفظ 'آزادی' کے نعرے کااستعمال کیا۔ اس میں کم از کم ایک واقعہ ایسا بھی شامل ہے جس میں خواتین مظاہرین کے سامنے پولیس افسروں نے اپنے جنسی اعضا دکھائے۔ زبانی زیادتیاں بھی فطری طور پر جنسی اور فرقہ وارانہ تھی۔ یہ واضح ہے کہ پولیس مدد کے لئے آگے نہیں آئی اور متعدد واقعات میں خواتین کے خلاف تشدد میں ملوث رہی۔

6: معاوضہ

امن و امان قائم رکھنے میں حکام کی ناکامی کی وجہ سے تشدد میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے سرکاری ملازموں اور عام شہریوں کی ہلاکت کے معاملات میں معاوضے کی رقم کے تعین میں شدید اختلاف ہے۔ سرکاری ملازمین کی اموات کی حالت میں بڑی مقدار میں معاوضہ دیا جارہا ہے جبکہ لوٹ مار، جلانے، املاک اور مذہبی مقامات کو ہونے والے نقصانات کے لیے یا تو معاوضے کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے یا بہت کم رقم ادا کی گئی ہے۔ تشدد کے چار ماہ گزر جانے کے بعد بھی، متعدد معاملات میں نقصانات کا توثیقی عمل مکمل نہیں ہوا ہے۔ بہت سے معاملات میں توثیق کے بعد بھی یا تو کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا ہے یا 'عبوری معاوضہ' کے نام پر بہت کم رقم ادا کی گئی ہے۔

7: سفارشات

1: حکومت کو خصوصی تشکیل کے ذریعے ایک پانچ رکنی آزاد کمیٹی تشکیل دینا چاہئے۔ اس کمیٹی کی سربراہی ہائیکورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی ہوگی، اور اس میں 1 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنزجج، 2 ایک سینئر ایڈوکیٹ، 3 ایک ریٹائرڈ پولیس اہلکار، جو ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدے سے کم نہ ہو اور جس نیدہلی پولیس میں خدمات انجام نہ دی ہوں، اور 4 اچھی شہرت رکھنے والے ایک سول سوسائٹی کا رکن بطور ممبر ہوں گے۔ سربراہ اور ممبروں کے انتخاب میں امیدواروں کی مناسبیت کا اندازہ مندرجہ ذیل معیارات کے مطابق کیا جانا چاہیے : (i) ذاتی دیانتداری کا عمدہ ریکارڈ، (ii) انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے ثابت عزمی، اور (iii) قانون اور اس سے متعلق کاروائیوں کا علم۔

2: کمیٹی کا مینڈیٹ کثیرالجہتی ہونا چاہئے اور اس میں یہ باتیں شامل ہونی چاہیے:

(i) تمام متعلقہ معاملات میں ایف آئی آر کی مناسب اور فوری رجسٹریشن کو یقینی بنائے جہاں شکایات کو ابھی تک ایف آئی آر میں تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔

(ii) تعزیرات ہند کے سیکشن 164 کے تحت متاثرین کے بیانات کی ریکارڈنگ کو یقینی بنائے

(iii) دہلی گواہ پروٹیکشن اسکیم کے مطابق گواہ اورمتاثرین کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

(iv) پولیس کے ذریعے دائرکردہ چارج شیٹوں کی روشنی میں ان کیسوں کا جائزہ لے جن کو چھوڑ دیا گیا ہے۔

(v) دہلی پولیس کے ذریعہ تشدد ہونے دینے یا اپنی ڈیوٹی سے دستبرداری کی تحقیقات، جس میں کمانڈ کی ذمہ داری بھی شامل ہے، اور ساتھ ہی ساتھ تشدد کی براہ راست کارروائیوں میں ملوث ہونے اور جنسی تشدد کی تحقیقات بھی شامل ہے۔ یہ شواہد رپورٹ، تصویروں، ویڈیوز اور دوسری دستاویزات کے ساتھ عدالت میں پیش کیے جائیں۔

(vi)اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ معاوضہ تمام متاثرین کو منصفانہ اور وقتی طور پر ادا کیا جائے۔

(vii) ہنگاموں سے متاثر افراد کے لئے دہلی حکومت کی امدادی اسکیم کا جائزہ لیا جائے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کیا ہر زمرے کے تحت معاوضے کی رقم نقصان، چوٹ اور نقصان کی مقدار کے متناسب ہے اور اگر ضرورت ہو تو امدادی اسکیم کا نیا خاکہ تحریری طور سے حکومت کو پیش کیا جائے۔

3: کلیمز کمشنر کی مدد کے لیے 2۔ 3 ماہرین کی ایک ٹیم مقرر کی جائے جو شاکی افراد کو مدد دلانے میں کمشنر کی مدد کرے۔

4: متاثرہ افراد کو قانونی خدمات کی فراہمی کے لئے دہلی اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی کے ساتھ مل کر، فوجداری قانون کے عمل میں قابلیت رکھنے والے 5-10 تجربہ کار ٹرائل کورٹ کے وکیلوں کی ایک ٹیم تشکیل دے۔ ٹیم میں صنفی توازن کو یقینی بنایا جائے اور یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ عوام اور یا سرکاری عہدیداروں کے خلاف جنسی تشدد کی شکایات درج کرنے سمیت خواتین اور بچوں کے متاثرین کی مدد کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں۔ نشانہ بننے والی خواتین کومؤثر قانونی نمائندگی کا یقین دلایا جائے نیز جنسی تشدد کے مقدمات کی پیروی کرنے والوں کو ان کی پسند کے وکیل کی شمولیت کے لئے قانونی مدد دی جائے۔

5: سیاسی رہنماؤں کی تقاریر اور نعروں کے شمالی مشرقی ضلع میں بھڑکنے والیتشدد سے براہ راست اور قریبی تعلق کے بارے میں ہائیکورٹ کی مدد کے لیے کسی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے قانونی رائے حاصل کی جائے۔

6: اس امر کو یقینی بنانے کے لئے خصوصی اقدامات کیے جائیں کہ کسی بھی شخص نے جس نے کسی گروہ کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کیا ہو اس کو ان معاملات میں سرکاری وکیل کے عہدے پر مقرر نہیں کیا جائے۔

7: سرکاری وکیلوں کے منصفانہ، غیر جانبدارانہ انداز میں اور انصاف کے مفاد میں کام کرنے کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کئے جائیں۔

8: موجودہ تحقیقاتی رپورٹ کے نتائج کو بطور بنیاد استعمال کرکے مذہبی عبادت گاہوں،مدرسوں، قبرستانوں اور مزارات کو ہونے والے نقصانات کی قیمت کا تعین کیا جائے اور ان کا معاوضہ دیا جائے ۔واضح رہے کہ تین سالہ دور مدت کار ختم ہونے اور دفتر چھوڑنے سے ایک دن پہلے، دہلی اقلیتی کمیشن نے جمعرات کو ایک پریس میٹنگ منعقد کرکے چار رپورٹیں جاری کیں جو تین دن قبل دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال، لیفٹیننٹ گورنر انیل بیجل، ڈائی، نائب وزیر اعلی منیش سسودیا اور دہلی کے تمام وزراء اور دہلی قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر کو پیش کی گئیں۔

یہ چار رپورٹیں یہ ہیں:

1 شمال مشرقی علاقوں میں مسلم خواتین کے بارے میں رپورٹ۔

2 سکھ فسادات کے متاثرین کی موجودہ صورت حال سے سے متعلق رپورٹ

3 شمال مشرقی ضلع میں ہونے والے فسادات کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ

4 دہلی اقلیتی کمیشن کی سالانہ رپورٹ برائے 2019-2020

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.