شاہ نے اس بار پارٹی کے کارکنان کو 'مشن 300 پار' کا ٹارگٹ دیا تھا اور اسے پورا کرکے بھی دکھایا۔ اس مشن کی کامیابی کے لیے بی جے پی کے صدر نے حکمت عملی تیار کی۔
امت شاہ نے ایک بار پھر دکھا دیا ہے کہ وہ بوتھ سے لے کر انتخابی میدان تک انتظامات اور تشہیر کی جو حکمت عملی تیار کی تھی ، اس میں کس طرح سے بڑے سے بڑے سیاسی رہنما بھی مات کھا گئے۔
شاہ کی قیادت میں نہ صرف بی جے پی کی لوک سبھا کی سیٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ جن ریاستوں میں پارٹی مضبوط تھی وہاں اور مضبوط ہوئی ہے اور اس نے کچھ نئے علاقوں میں جیت درج کی۔ سات ریاستیں ایسی ہیں جو 'کانگریس مکت' ہو گئی ہیں یعنی ان ریاستوں میں کانگریس پوری طرح سے ناکام نظر آئی۔
کرناٹک، اڑیسہ، مغربی بنگال اور شمال مشرقی بھارت میں بی جے پی مضبوط ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ تریپورہ میں پارٹی صفر سے حکومت بنانے کے اہل نمبر تک پہنچ گئی۔
شاہ کی سیاسی حکمت عملی:
1 ۔ اتحاد
شاہ نے مشن 300 کو پورا کرنے کے لیے سیاسی بساط پر کئی طرح کی چال چلیں۔ انہوں نے بہار اور مہاراشٹر میں این ڈی اے کی ساتھی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے میں نرم رخ اختیار کیا۔ شمال مشرقی بھارت میں قدم رکھنے کے لیے نارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک الائنس بنایا۔
2 ۔ ذات کے خلاف ذات:
بہار اور یوپی، جہاں ذات کی سیاست کا زور تھا، وہاں شاہ نے ذاتوں کو ذاتوں سے ہی لڑا دیا۔ اسے ایسا سمجھ سکتے ہیں کہ یوپی کی سیاست میں کسی پارٹی کے لیے یادو اہم تھے تو شاہ نے اس پارٹی کے خلاف غیر یادو ذاتوں کو اپنے خیمے میں لانے کی حکمت عملی تیار کی۔ انہوں نے یہی کام بہار میں بھی کیا۔
ذات کے خلاف مذہب کا کارڈ
شاہ نے ذات کے خلاف مذہب کا کارڈ کھیلا۔ یوگی آدتیہ ناتھ جیسے رہنماؤں کو آگے بڑھاکر ہر ہندو کو ایک بینر تلے جمع کرنے کی کوشش کی۔ بی جے پی کے رہنماؤں نے مذہب کے تعلق سے کئی بیانات دیے اور پولرائزیشن ہوا۔ پرگیہ ٹھاکر کو ٹکٹ دینا اسی حکمت عملی کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے۔ پرگیہ نے جب ناتھورام گوڈسے پر بیان دیا اور جب امت شاہ سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں پرگیہ کو ٹکٹ دیے جانے پر افسوس ہے تو شاہ نے اس کا جواب دیا کہ 'پرگیہ کی امیدواری بھگوا آتنک واد کے فرضی الزام کے خلاف ہمارا ستیہ گرہ ہے۔ اس الزام کے لیے کانگریس کے صدر کو معافی مانگنا چاہیے۔
ترقیاتی کاموں اور قوم پرستی کی حکمت عملی
ترقیاتی کاموں اور نیشنل سکیورٹی پر ایک ساتھ زور دیا۔ بی جے پی کے رہنماؤں سے ریلیز میں ترقیات کے موضوع پر بات کروائی تو بالاکوٹ، پلوامہ جیسے معاملے کو بھی خوب ہوا دینے کو کہا۔ اس سے تمام معاملے چھوٹے ہو گئے اور قوم پرستی کا معاملہ چھا گیا۔
کارکنان کی تعداد میں اضافہ
گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے ساتھ 4 کروڑ کارکنان تھے۔ 2019 آتے آتے 11 کروڑ سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ امت شاہ کی کوشش ہر بوتھ تک پہنچنے کی تھی۔ اس کے لیے انہوں نے بڑے پیمانے پر نئے کارکنان بنانے کی مہم چلائی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ 2014 کے بعد امت شاہ کبھی بھی انتخابی موڈ باہر ہی نکلے۔ انتخابی مہم کے آخری روز 17 مئی کو خود امت شاہ نے بتایا کہ 'بی جے پی کا مشن 2019 جنوری 2016 سے ہی شروع ہوا تھا۔ شاہ نے پورے ملک میں قریب 500 الیکشن کمیٹیوں کو تشکیل دیا اور قریب 7000 رہنماؤں کو تعینات کیا۔
شاہ کی عوامی رابطہ مہم:
امت شاہ نے ایسی 120 سیٹوں پر خاص توجہ دی جہاں بی جے پی پہلے انتخاب نہیں جیت پائی تھی۔ تین ہزار افراد نے گذشتہ دو برس سے اسمبلی اور لوک سبھا کے علاقوں میں کام کیا۔ یہ لوگ 'سوئم سیوی' تھے یعنی وہ خود سے کام کرتے تھے اس کے لیے انہیں کوئی تنخواہ یا معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی خصوصی مہم چلائی گئی۔
شاہ یعنی سیاست
امت شاہ نے پہلی بار 1991 کے لوک سبھا انتخابات میں گاندھی نگر میں بی جے پی کے سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانی کی انتخابی کا انتظام دیکھا تھا مگر ان کے بوتھ مینیجمنٹ کا 'کرشمہ' 1995 کے ضمنی انتخابات میں تب نظر آیا جب سابرمتی اسمبلی سیٹ پر اس وقت کے نائب وزیراعلیٰ نرہری امین کے خلاف انتخاب لڑ رہے یتن اوجھا کی انتخابی مہم کی ذمہ داری انہیں دی گئی۔
شاہ کے بارے میں ایک بات اور کہی جاتی ہے کہ پارٹی میں ان کے علاوہ کسی کی نہیں چلتی۔ ٹکٹ دینے کا معاملہ ہو یا پھر کسی حکمت عملی کا، جو شاہ کو صحیح لگتا ہے وہ وہی کرتے ہیں۔ اگر انہیں کسی امیدوار کی ہار کا ڈر ہوتا ہے تو اسے ٹکٹ نہیں دیتے، چاہے وہ کتنا ہی قدآور ہو یا کسی کا خاص کیوں نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی شاہ کو اچھے کارکنان کی اچھی پہچان ہے۔