مشرف عالم ذوقی نے قلم کی حرمت سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا، بلکہ حق و صداقت کی جنگ اپنے قلم اور عمل سے لڑتے رہے بالخصوص مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و جبر کو ناموافق حالات میں بھی جس طرح سےذوقی نے پیش کیا اس کی نظیر خال خال ملتی ہے۔ وہ حد فعال ادیب تھے اور انہوں نےاردو کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا ۔
دس ناولوں اور درجن بھر سے زائد افسانوی مجموعے، شاعری کالم اور تنقیدی کتابیں ان کے تخلیقانہ ذہن و فکر کی بین ثبوت ہیں وہ بےحد حساس اور ممتاز تخلیق کار تھے ان میں مصلحت پسندی کا نام و نشان نہ تھا کئی بار انہوں نے سچائی کو پیش کرنے کےلیے بھاری قیمت بھی چکائی، لیکن ضمیر کا کبھی سودا نہ کیا۔
پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نےکہا کہ ذوقی صاحب جیسا لوگوں سے محبت کرنے والا میں نے نہیں دیکھا وہ سب کے دوست تھے۔ بڑوں کا احترام اور طلبہ و طالبات سے شفقت سے پیش آتے تھے میری دعوت پر متعدد بار بنارس ہندو یونیورسٹی کا دورہ کیا اور اپنی تقریروں، لیکچر سے طلباء طالبات کے علم میں اضافہ کیا۔
مشرف عالم ذوقی دوستوں کی طرح بات کرتے تھے اور ادبی مسائل پر کھل کر اظہار خیال کرتے تھے ہمارے بین الاقوامی سمینار "اردو ہندی کی ساجھی وراثت"سے وہ بہت متاثر ہوئے وہ بنفس نفیس شریک ہوئے بلکہ دہلی جا کر اس پر ایک طویل کالم بھی لکھا اور اس لوگوں کو اس نوعیت کے پروگرام کی انعقاد پر توجہ دلائی۔ وہ ہندی میں بھی بے حد مقبول تھے وقتا فوقتا فون کرتے اور علمی ادبی و سیاسی حالات پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔ ان کا گزر جانا حق و صداقت کے قلم کا خاموش ہو جانا ہے اللہ رب العزت ان کو غریق رحمت کرے۔
واضح رہے کہ کل مشرف عالم ذوقی کے انتقال کی خبر سے صدمہ پہنچنے سے آج ان کی اہلیہ تبسم فاطمہ جو ایک معروف شاعرہ اور ادیبہ تھی ان کا بھی آج انتقال ہوگیا۔