ریاست بہار میں قانون ساز کونسل کے تحت دو حلقہ گریجویٹ اور ٹیچرز کے لیے انتخاب ہونگے، گزشتہ شام کو الیکشن کمیشن نے باضابطہ اسکی تاریخ مقرر کرکے نوٹیفیکشن جاری کردیا ہے 6مارچ کو اس حوالے سے امیدوار نامزدگی کا پرچہ داخل کرینگے اور 31مارچ کو ووٹ ڈالے جائیں گے انتخاب کے اعلان کے ساتھ ہی امیدواروں کی سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ اب ٹیچرز بھی اپنے مطالبے کو لیکر متحرک ہوچکے ہیں خاص طور پر اقلیتی اداروں کے ووٹرز جنکے مسائل برسوں سے نظرانداز کیے جارہے ہیں وہ اپنے مسائل پر آواز اٹھانی شروع کردی ہے۔
آج اس حوالے سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے شہر گیا میں واقع سرکاری اقلیتی اداروں کے اساتذہ سے انکے مسائل پر گفتگو کی ہے۔ اس حوالے سے ہادی ہاشمی ہائی اسکول کے استاد حافظ رکن الدین نے کہاکہ بہار سرکار کے عہد کے مطابق جو سہولیات سرکاری اسکولوں کے اسٹاف کو ملے گی وہ اقلیتی اسکول کے اسٹاف کو بھی ملے گی مگر کئی جگہ اس میں بھید بھاو ہے مثلاً غیر اقلیتی سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو ' جی پی ایف ' اور ' انشورنس ' کی سہولت فراہم ہے تاہم اقلیتی اسکول کے اساتذہ کو یہ سہولت فراہم نہیں ہے ساتھ ہی ایک مسئلہ اور یہ ہے کہ نئے ٹیچرز جو 2004کے بعد بحال ہوئے ہیں وہ سرکاری اسکول کے ٹیچرز' پران ' نمبر ہے اور انکے اسکولوں میں نیو پنشن اسکیم بھی نافذ ہے مگر اقلیتی اسکول کے ٹیچر کو اس کا فائدہ نہیں مل رہا ہے ۔
گیا میں 6 اقلیتی اسکول ہیں جو پلس ٹو 2007 کے بعد کردیئے گئے لیکن آج تک پوسٹ بحال نہیں کیا گیا ہے جبکہ اس سلسلے میں مرزا غالب کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر خورشید احمد خان کہتے ہیں کہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے کہ پوسٹ سبکدوش اساتذہ کو سبکدوشی کے بعد پینشن حاصل ہے لیکن اقلیتی اسکولوں کے ان ٹیچرز کو پینشن نہیں دی جاتی ہے جو اگست 2010 سے پہلے سبکدوش ہوگئے ہیں۔ بہار میں اقلیتی کالجوں کے ایسے ستر کے قریب اساتذہ ہیں جنکو اس کا فائدہ نہیں مل رہاہے اگر انہیں اس کا فائدہ ملے تو وہ آسانی سے اپنی زندگی بسر کرسکیں- انہوں نے جیت سے ہمکنار ہونے کے بعد کی بے رخی کے سوال پر کہا کہ عام رویہ ہے کہ یہ عوامی نمائندے تب بولتے ہیں جب انکی سیاسی پارٹیاں ایسا کرنے کو کہتی ہیں-
ذاتی طور پر انکی دلچسپیاں راہ راست نہیں ہوپاتی ہیں وہ مسائل کو اٹھا نہیں پاتے ہیں یہ ایک المیہ ہے جبکہ مرزا غالب کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ضیاء الرحمن جعفری نے کہاکہ ووٹ ہمارا قانونی حق ہے اسلیے ووٹ تو کریں لیکن امیدواروں سے یہی گزارش ہے کہ وہ وہی وعدے کریں جسکو آپ نبھاسکتے ہیں ہمارا اس مرتبہ مطالبہ ہوگا کہ اقلیتی ادارے کالج اسکول مدارس کو دھیان دیں کیونکہ وہ تھوڑا پچھڑے ہوئے ہوتے ہیں انکے مسائل کو حکومتی سطح پر حل کرانے میں آپکی مدد کی ضرورت ہوتی ہے کئی ایسے معاملے ہیں جو آج تک سردمہری کا شکار ہیں افسوس یہ کہ ہم اپنا نمائندہ منتخب کرکے بھیجتے ہیں لیکن یہ ہماری نمائندگی نہیں کرپاتے ہیں
واضح ہوکہ گیا ٹیچر نشست میں کل 8 ضلع ہیں جس کو ملاکر یہ ایک نشست ہے یہاں موجودہ رکن قانون سازکونسل سنجیو شیام سنگھ ہیں انہوں نے گزشتہ مرتبہ جے ڈی یو کی حمایت سے جیت درج کی تھی اس انتخاب میں پارٹی کا نشان نہیں ہوتا ہے یہ برارہ راست امیدوار کے نام پر اپنی پسند درج کرنی ہوتی ہے اس نشست کے تحت آٹھوں ضلعے میں 19534ٹیچرز ہیں جو حق رائے دہی کا استعمال کریں اس میں ضلع گیا 4092ٹیچر ووٹر ہیں اسکا انتخاب 31مارچ کو ہوگا جبکہ اسکی گنتی گیارہ اپریل ہوگی
مزید پڑھیں:گیا میں ایک ایسا اسکول ہے، جہاں بچوں کی تعداد پانچ اور ٹیچرز دو