رضوان پر عسکریت پسندوں سے تعلق رکھنے اور انہیں پناہ دینے کا الزام تھا، ان پر پی ایس اے بھی لگا ہوا تھا۔
تاہم رضوان کے اہل خانہ کا کہنا کہ ہے کہ وہ بے قصور تھے اور ان کا عسکریت پسندوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، ا ن کے مطابق رضوان کو جھوٹے کیس میں پھسایا گیا تھا اور جان بوجھ کے ان کو ہلاک کر دیا گیا۔
اہلخانہ کے مطابق چندماہ قبل پولیس حراست میں تھے اور انہیں ضمانت ملی تاہم پولیس نے انہیں رہا کرنے سے انکار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ضمانت دلانے کے لیے انہوں نے مسلسل 20 روز جد و جہد کی اور بھر انھیں رہائی ملی۔رضوان نے معمول کے مطابق اپنی زنگی ازسر نو شروع کی لیکن تقریبا دو ماہ کے بعد پھر انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
تین دن قید کے بعد گزشتہ شب کو رضوان کے اہلخانہ کو اطلاع دی گئی کہ رضوان کی موت ہوگئی، جس کو رضوان کا اہلخانہ سمجھنے سے قاصر ہے۔
یوں تو رضوان کے اہلخانہ کا مطالبہ ہے کہ اس ہلاکت کی جانچ پڑتال ہو لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے کیسز کشمیر میں معمول بن چکا ہے اور انہیں تحقیقات سےکوئی امید نہیں ہے۔
ان کے قریبی رشتہ دار کا کہنا ہے کہ کشمیر کے جیلوں میں ایسے ہلاکتیں ہوتی رہتی ہیں اور تاحال کسی بھی کیس تحقیقات نہیں ہو پائی۔
ان کا کہنا تھا: میں سمجھتا ہوں کہ کشمیری عوام کے ظلم و ستم کیا جارہا ہے اور ظلم و ستم کی کوئی تحقیقات نہیں ہوتی ہے، لہذا ہمیں تحقیقات سے کوئی امید نہیں ہے لیکن پھر بھی ہم تحقیقات کرانے اک مطالبہ کر رہے ہیں۔