اننت ناگ:ضلع اننت ناگ کے وسط میں موجود اندر ناگ شیر باغ مذہبی رواداری اور آپسی بھائی چارہ کا ایک اہم اور تاریخی مقام ہے۔ یہ جگہ ہندو سکھ مسلم اتحاد کی عکاسی کرتا ہے،کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر مندر مسجد گردوارہ اور بابا حیدر ریشی کی درگاہ موجود ہے۔اس لئے اس جگہ پر ہر مذہب کے لوگوں کا ملن ہوتا ہے جس سے مذہبی رواداری اور آپسی بھائی چارہ کو فروغ ملتا ہے۔
اندر ناگ میں اننت بھگوان کا مندر موجود ہے جسے یہاں کے مندروں میں ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں دیوی بل مندر بھی موجود ہے، اننت چتر دشی کے موقعہ پر ہر سال یہاں پر ایک بڑی تقریب کا انعقاد ہوتا ہے جس میں کشمیری پنڈتوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف حصوں سے کشمیری پنڈت عقیدت مند سال بھر مندر پر حاضری دیکر پوجا کرتے ہیں۔یہ روایت رہی ہے کہ کشمیری پنڈت اننت بھگوان کی پوجا کے بعد بابا حیدر رشی ؒ کے آستانے پر حاضری دیتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں بھلے ہی انسان کو سب سے بڑا مذہب قرار دینے کے لئے کئی واقعات تحریر کیے گئے ہوں، لیکن کشمیر ایک ایسی جگہ ہے جہاں پر ہر مذہبی تہوار کے دوران مذہبی بھائی چارہ کی عکاسی ہوا کرتی ہے ۔
کشمیری پنڈتوں کے مطابق یہ جگہ بھگوان شیو اور ماتا پاروتی کا پہلا ٹھکانہ ہے۔ایک زمانہ میں بھگوان شیو اور ماتا پاروتی نے اس جگہ پر قیام کیا تھا،جس کے بعد امر کتھا سنانے کے لئے بھگوان شیو ماتا پاروتی کو پہلگام کے ہمالیائی پہاڑیوں میں لے گئے تھے جس کے بعد امرناتھ یاترا کا آغاز ہوگیا۔
کشمیری پنڈتوں نے کہا کہ 90 کی دہائی سے قبل اننت چتردشی کے موقعہ پر مسلم اور سکھ برادری کے لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ،لیکن نامسائد حالات کے بعد وہ سلسلہ بند ہوگیا تھا، اور کشمیری پنڈت بھی اس جگہ پر حاضری دینے سے کترا رہے تھے ،تاہم حالات میں نمایاں بہتری کے بعد اننت بھگوان کے مندر میں حاضری دینے والے کشمیری پنڈتوں کی تعداد میں خاصا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
مزید پڑھیں: Amarnath Yatra 2023 Concluded امرناتھ یاترا 2023 اختتام پذیر، تھجی وارہ میں بڑی تقریب کا انعقاد
کشمیری پنڈتوں نے کہا کہ بھلے ہی حالات کی وجہ سے دوریاں پیدا ہو گئیں لیکن آپسی بھائی چارہ اور ملنساری کا جذبہ ابھی بھی برقرار ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہاں کے لوگ بڑے دنوں کے موقعہ پر ان کا والہانہ استقبال کرتے ہیں اور ان کے تہواروں میں بلا مذہب و ملت شریک ہو جاتے ہیں۔کشمیری پنڈتوں نے وادی واپسی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہاں 90 کی دہائی سے قبل جیسے حالات پیدا ہوں تاکہ وہ پھر سے مسلم سکھ برادری کے ساتھ اپنا گزر بسر کر سکیں۔