ایک سال گزر چکا ہے کہ جب بھارت سرکار نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس لیکر آئینِ ہند کی دفعہ 370 کو ختم کرنے سے اس سرحدی ریاست کو بھارت کے ساتھ بہتر طور پر ضم کرنے کی کوشش کی۔ 5 اگست 2019 کو کئے گئے اس اقدام نے سب کو حیرت زدہ کردیا، وہیں پاکستان کو موقع مل گیا کہ وہ بھارت کے خلاف اس اقدام کی سخت مذمت کرنے کے لیے عالمی براداری کو اکسائے۔حالانکہ اپنے اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے پاکستان کے جی زور لگانے کے باوجود باالخصوص ستمبر کے ماہ میں اقوام متحدہ میں ترکی اور ملیشیاٗ ۔چھوڑ کر کسی بھی ملک نے بھارت کی مذمت نہیں کی۔ حالانکہ اس نے سعودی عرب،ایران اور مغربی ایشیأ کے دیگر اہم مسلم ممالک اور آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن (او آئی سی) سے اپیلیں کی تھیں۔
پھر کووِڈ19 جیسے وبائی بحران کا دور شروع ہوا اور کشمیر کا موضوع اخبارات کے صفحات اول سے دھیرے دھیرے غائب ہونے لگا اور اس کے ساتھ ہی دنیا کی توجہ پاکستان کی حمایت کرنے والا ملک چین کی طرف مرکوز ہوگی، یہاں تک کہ بین الاقوامی سطح پر تنقید کا مرکز بن گیا۔
ایمبسڈر انیل ترگیونایت ، جو لیبیا اور جارڈن میں بھارت کے سفیر کے طور پر اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں اور مغربی ایشیأ و شمالی افریقہ کے علاقہ سے بہت اچھے سے واقف ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کی تنسیخ سے مذکورہ بالا ممالک کے ساتھ بھارت کے تعلقات پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑا ہے۔ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ نہ صرف یہ کہ دفعہ 370 کی تنسیخ سے بھارت کے ان ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر نہیں ہوئے ہیں بلکہ یہ کوئی موضوعِ بحث بھی نہیں ہے اور متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک نے بھارت میں اپنی سرمایہ کاری کو پہلے کے مقابلے میں بڑھا دیا ہے۔
پیش ہیں اس انٹرویو کے اقتباسات:
ای ٹی وی: ایک بڑے بازار اور بہت سے بھارتی تارکینِ وطن کے ذریعہ توانائی و ترسیلاتِ زر کے ایک بڑے ذریعہ کی حیثیت سے مغربی ایشیأئی خطہ ہمیشہ ہی بھارت کی خارجہ پالیسی کا مرکز رہے گا۔کووِڈ19- کی وبا نے اس خطہ ،باالخصوص خلیج،کے ساتھ بھارت کے تعلقات کو کس طرح متاثر کیا ہے؟عالمی سفارت کیلئے موجودہ بدلے ہوئے وقت میں کس قسم کا تعاون ہورہا ہے؟
ایمبسڈر اے ٹی: میرے خیال میں مغربی ایشیأ ،جو ہمارا دور کا پڑوسی ہے،بھارتی تارکینِ وطن کی بہبود،تجارت سمندری راستوں ، سلامتی ، توانائی اور،چونکہ ہم درمیانی مدت میں ہائیڈرو کاربن پر انحصار کرتے رہیں گے، فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے ہمارے لئے انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔
چونکہ اس خطہ میں کافی بھارتی کمپنیاں کام کر رہی ہیں گلف کواپریشن کنٹریز،باالخصوص سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور قطر نے بھارت کی ترقی کی کہانی میں اور اسکے بازار میں اپنی سرمایہ کاری کو بڑھایا ہے۔سعودی عرب نے حال ہی میں جیو پلیٹ فارمز میں سرمایہ کاری کی ہے اور ریلائنس انڈسٹریز میں 20 بلین ڈالرز کی مزید سرمایہ کاری کا اسکا ارادہ ہے۔متحدہ عرب امارات کا 75 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا عزم ہے۔وزیرِ اعظم نریندرا مودی اور وزیرِ خارجہ (سبھرامنئم) جئے شنکر نے تو کووِڈ19- میں بھی اس خطہ میں اپنے ہم مناصب کے ساتھ بات کی اور انہیں طبی تعاون،بشمولِ ریپڈ ریسپانس ٹیموں کی تعیناتی فراہم کیا۔
جی سی سی حکومتوں کے تعاون سے وندے بھارت مشن کے تحت چار لاکھ کے قریب بھارتیوں کو واپس وطن لایا گیا.سب سے اہم یہ کہ ڈیجیٹل ڈپلومیسی میں بھارت کی پہل کو بھی کافی سراہا جارہا ہےجب وزیرِ اعظم مودی نے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ عالمی مسائل،باالخصوص عالمی معیشت پر وبا اور کووِڈ19- کے منفی اثرات سے مقابلہ کرنے کیلئے مشترکہ بین الاقوامی کوشش کرنے کیلئے، پر ورچول جی 20- سمٹ کا انعقاد کیا۔
اسرائیل کے ساتھ ہم نے کووِڈ19- کی ویکسین کے ساتھ ساتھ ایڈوانسڈ ٹیسٹنگ کِٹ اور ٹریسنگ ٹیکنالوجی پر اور قریب ہوکر کام کرنا شروع کیا۔دراصل اگر ایک اسٹرنگتھ ،وِیکنس،آپرٹیونٹی اینڈ تھرٹس (ایس ڈبلیو او ٹی) تجزیہ کیا جائے، میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کی ایکٹ ویسٹ پالیسی اصل حاصل اور اسٹریٹجک اوبجیکٹیو،بشمولِ دفاعی و سکیورٹی معاملات کے حوالے سے وزیرِ اعظم مودی کی کامیاب خارجہ پالیسی ہے۔
ای ٹی وی: سابق چیف اکونامک ایڈوائزر کوشک باسو، نے حال ہی میں کہا ’’بھارت مذہبی جنونیت کی وجہ سے وہ سب کچھ کھوتا جارہا ہے کہ جو اس نے 70 سالوں میں حاصل کیا ہوا تھا‘‘۔ مغربی ایشیأئی ممالک زبردست اسلامی ہیں،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے بیانات ،باالخصوص آج کے اس (اسلامی) خطہ میں، کوئی معنیٰ رکھتے ہیں؟یہ سب باالخصوص جموں کشمیر میں دفعہ 370 کی تنسیخ ،جس پر مسلم ممالک یہاں تک کہ آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز میں بھی شور مچا تھا،کی پہلی سالگرہ کے تناظر میں پوچھا جارہا ہے؟
ایمبسڈر اے ٹی: بھارت دنیا میں دوسرا بڑا مسلم ملک ہے اور یہاں اسلام کئی عرب ممالک تک پہنچنے سے پہلے ہی پہنچ گیا تھا ،وہ لوگ بھارت کی ترقی کے اٹوٹ جُزو ہیں۔ سرکاری طور پر سکیولر بھارت میں وہ (مسلمان) لوگ کامیابیوں کی بلندیوں تک پہنچے ہیں چاہے وہ صدرِ مملکت کا عہدہ ہو،نائبِ صدر کا ،چیف جسٹس کا، سائنس دانوں یا فوجی افسروں کا یا پھر بالی وُڈ کے اعلیٰ اداکاروں کا مقام۔وہ لوگ سب سے پہلے بھارتی ہیں۔
میرے خیال میں اسلامی دنیا کے ساتھ لین دین کے دوران یہی چیز ہمارا نکتۂ سخن (ٹالکنگ پوائینٹ) ہونا چاہیئے تاہم بعض عہدیداروں کے غیر ذمہ دارانہ اور غیر متوقع بیانات سے سوشل میڈیا پر ایسا طوفان آجاتا ہے کہ جس سے حالانکہ بچا جاسکتا تھا۔ایسے لوگوں کیلئے قانون کے مطابق سختی سے نپٹا جانا چاہیئے۔ہم ملک کیلئے (اسلامی دنیا میں) زبردست خیرسگالی کو کھونے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔
جہاں تک دفعہ 370 کی بات ہے مغربی ایشیأ کے بیشتر لیڈروں نے،باالخصوص دوطرفہ طور، بھارت کے خود مختارانہ فیصلوں کے تئیں سمجھ اور قبولیت دکھائی لیکن او آئی سی کے بیانات کا ،پاکستان کی تخلیق کردہ شوروغل کے سوا،کوئی حقیقی معنیٰ نہیں ہے ۔
ای ٹی وی: اس خطہ یا باقی جگہوں پر ظاہر معشیتی تنزلی کا بھارت پر کتنا بُرا اثر ہوا ہے؟
ایمبسڈر اے ٹی: کووِڈ19- نے پوری دنیا کے معمولات میں غیر متوقع افراتفری پھیلادی ہے،تقریباََ سبھی معیشتیں کساد بازاری کی شکار ہیں اور انہیں بحال ہونے میں خاصا وقت لگے گا۔تیل پیدا کرنے والی مغرب ایشیائی ممالک اور بھارت اس صورتحال سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔مغربی ایشیأ کا،لمبے عرصہ تک تیل کی قلیل قیمتوں اور اسکی نہ ہونے کے برابر طلب کی وجہ سے، تو اور بھی زیادہ نقصان ہوا ہے۔فی الواقع تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ تیل کی قیمتیں صفر سے بھی نیچے چلی گئیں۔تیل پیدا کرنے والے بیشتر ممالک نے اپنے میزانیوں میں تیل کے فی بیرل کی قیمت 70 ڈالر رکھی ہے لیکن موجودہ قیمتیں اس سے کہیں نیچے ہیں لہٰذا (ان میں سے) کئی ممالک کو بڑے منصوبے اور عوامی اخراجات منسوخ کرنا پڑے اور ان ذرائع کو وبأ کا مقابلہ کرنے کی کوششوں کی جانب موڈنا پڑا۔ تاہم ،چونکہ بھارتی افرادی قوت کو مقامی لوگ مجموعی طور پسند کرتے ہیں اور وہ انکا بھروسہ مند ہے ،مجھے یقین ہے کہ جونہی جی سی سی ممالک میں حالات بہتر ہونگے،وہ (بھارتی) ترجیحی طور دوبارہ ملازمت میں لئے جائیں گے۔