کمیونسٹ پارٹی آف نیپال کی سٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ جو 8 جولائی کو طے تھی، بھی ملتوی ہوگئی ہے۔ غالباً یہ میٹنگ اس لیے ملتوی کی گئی ہے تاکہ موجودہ تعطل میں وزیر اعظم کھاگڑا پرساد شرما (اولی) کو صورتحال قابو کرنے کے لیے مزید مہلت مل سکے۔
بھارت اور نیپال کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ جو بظاہر چین کی پشت پناہی کے سبب شروع ہوا ہے، پر وزیراعظم اولی کو عوام اور نیپالی سیاستدانوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، کیونکہ وہ اسے اندورونی معاملات میں چین کی مداخلت سے تعبیر کررہے ہیں۔
بھارت میں بھی حزب اختلاف نے حکومت کو نیپال کے ساتھ صدیوں کے رشتوں کو بنائے رکھنے میں اسکی خارجہ پالیسی کی ناکامی پر ہدف تنقید بنایا ہے۔ حالانکہ دونوں ملکوں کے درمیان اس رشتے کی خصوصیت کی وجہ سے اسے ’روٹی بیٹی ‘ کا تعلق یعنی ہم پیالہ ہم نوالہ کے مانند سمجھا جاتا تھا۔ حالانکہ ایسا سمجھنا بھی ایک غلطی ہے۔ کیونکہ کسی بھی کنبے کی طرح دو ہمسائیوں کے تعلقات بھی ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہ سکتے ہیں۔ تعلقات میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔ پڑوسی ممالک کے درمیان کبھی کبھار بعض ناسازگار حالات کی وجہ سے تناو پیدا ہوجانا ایک فطری عمل ہے۔ یہی کچھ بھارت اور نیپال کے تعلقات کے حوالے سے بھی دیکھنے کو ملا۔ بادشاہت کے دور میں نیپال اکثر بھارت پر الزام عائد کرتا رہا کہ وہ نیپال میں تختہ پلٹنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ نیپال میں ایک جمہوری حکومت قائم کی جاسکے۔ بھارت سے متعلق اس طرح کے اندیشے سال 1975ء میں اُس وقت عروج کو پہنچ گئی، جب یہ خدشہ پیدا ہونے لگا کہ کہیں نیپال کی حالت بھی سکم جیسی نہ ہوجائے۔نیپال نے خود کو ایک ایسا پر امن خطہ قرار دینے کی تجویز دی، جس میں کسی بھی فوجی مقابلہ آرائی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔
چین اور پاکستان نے اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوراً نیپال کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط کئے جبکہ بھارت نے یہ کہہ کر اس معاہدے کا حصہ بننے سے انکار کیا کہ بھارت اور نیپال کے درمیان پہلے سے ہی وسیع امن اور دوستی کا معاہدہ موجود ہے۔ اس کے بعد نیپال نے سال 1988ء میں بھارت کے ساتھ پہلے سے ہی موجود معاہدے کو تجدید کرنے سے انکار کیا۔ اس کے جواب میں بھارت نے نیپال پر اقتصادی قدغن لگادی۔ یہ تناو 1991ء میں دو الگ الگ طرح کے معاہدوں کے نتیجے میں ختم ہوگیا تھا۔ اسی طرح کی صورتحال پھر سال 2015ء میں پیدا ہوئی، جب نیپال نے آئین میں ترمیم کی اور اس کی وجہ سے مدیشی آبادی ( بھارتی نژاد) ناراض ہوگئے تھے۔ تاہم اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان جاری تناو کا سبب بھارت اور نیپال کے درمیان موجود سرحدی تنازعات بن گئے ہیں۔ اس سرحدی تنازعے کی جڑیں 1816ء میں برطانوی راج کے دوران بھارت نیپال کے درمیان ہوئے معاہدے جس میں کالا پانی (ندی) کے آغاز کو نیپال کی مغربی سرحد قرار دیا گیا ہے۔ سرحد کا یہی نکتہ تنازعے کا سبب بنا ہوا ہے۔ بھارت کا ماننا ہے کہ کالا پانی کا ماخذ لیپو لیکھ کے قریب واقع ہے جبکہ نیپال کا کہنا ہے کہ دریا کا یہ ماخذ مغرب میں واقع لمپیادھورا کے قریب واقع ہے۔ اس طرح سے نیپال اُتراکھنڈ کے ایک خطے پر اپنا دعویٰ جتلا رہا ہے۔
اولی جو دوسری بار وزیر اعظم بنے ہیں ، نے پارلیمنٹ میں نیپال کا نیا نقشہ پاس کرایا۔ دراصل اُنہوں نے یہ سب کچھ ملک گیر کرپشن اور چینی سفیر مس ہو ینقی کے ساتھ ذاتی تعلقات پر ہورہی اُن کی تنقید سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے کیا۔ اسکے علاوہ اولی نے اپنی پارٹی کے کو چیئرمین پراچند کے لئے وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑنے میں آنا کانی کررہے ہیں، جبکہ طے شدہ مفاہمت کے مطابق وہ اپنا عہدہ چھوڑنے کے پابند ہیں۔ اولی کی جانب سے بھارت پر الزام ہے کہ وہ اُن کی پارٹی کے اندر تناو پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ تاہم اُن کے اس الزام پر پارٹی کے کئی لیڈران ناراض ہیں۔ اس بیچ چینی سفیر ہو ینقی وزیر اعظم اولی کو بچانے کے لیے سر توڑ کوششیں کررہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہوینقی نے نیپال کے صدر اور وزیر اعظم کے ساتھ کئی میٹنگیں کیں جبکہ ان میٹنگوں کے انعقاد کے حوالے سے قواعد و ضوابط کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا۔ اس کی وجہ سے بھی یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ ان میٹنگوں کے پس پردہ خفیہ مقاصد رہے ہیں۔
یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ چین آخر بھارت اور نیپال کے تعلقات میں حائل کیوں ہورہا ہے۔ اسکی وجوہات عیاں ہیں۔ اولاً چین بارڈر روڑ انشیٹیو کے ذریعے نیپال کو قرض کے جال میں پھنسانا چاہتا ہے۔ ثانیاً یہ کہ چین نیپال میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعے بھارت کو پریشان کرسکے۔ تیسری وجہ ہے کہ چین تمام سارک ممالک کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اس خطے کی تعمیر و ترقی کی صلاحیت بھارت کے پاس نہیں بلکہ چین کے پاس ہے۔ چوتھی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین اس طرح سے بھارت کو دباو میں رکھنا چاہتا ہے ۔ وہ بھارت کے خلاف نیپال کا محاذ کھول کر تجارت اور انسانی حقوق کے معاملات پر اس پر بڑھتے ہوئے عالمی دباو سے توجہ ہٹانے کی کوشش کررہا ہے۔
چین کا حربہ یہ ہے کہ وہ نیپال کو قرض کے بوجھ تلے دبانا چاہتا ہے۔ فی الوقت چین نیپال میں کئی پروجیکٹوں پر کام کررہا ہے۔ وہ پوکھرا میں ایک ایئرپورٹ بنا رہا ہے اور ایک یونیورسٹی تعمیر کررہا ہے۔ اس کے علاوہ چین نیپال میں سرحدی علاقوں میں سڑکیں تعمیر کررہا ہے اور کاٹھمنڈو اور تبت کے درمیان ایک ریل لنک تعمیر کررہا ہے۔ اس ریل لنک جو پہاڑوں کو چیر کر بنائی جارہی ہے، پر لاگت کا تخمینہ چھ بلین ڈالر یعنی چھ سو کروڑ روہے ہے۔ فی الوقت نیپال چین کا دو بلین ڈالر کا مقروض ہوگیا ہے، جو اب بڑھ کر آٹھ بلین ہوگا۔ ریلوے پروجیکٹ پر آنے والی لاگت سال 2020ء میں نیپال کے مجموعی جی ڈی پی کا 29 فیصد ہے۔ یقینی طور پر نیپال چین کے قرض کے بوجھ تلے دب جائے گا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ چین کا منصوبہ ناکام ہورہا ہے کیونکہ پارٹی میں وزیر اولی کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔ اس بات کا انکشاف بھی ہوا ہے کہ چین نے نیپال کے کئی علاقوں میں دراندازی کی ہے۔ اسکے علاوہ نیپال میں بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ چین کی جانب سے زیر تعمیر ریلوے پروجیکٹ قابل عمل نہیں ہے۔ ساتھ ہی بھارت کی قیمت پر چین کے ساتھ پینگیں بڑھانے پر بھی وزیر اعظم اولی کے مخالفین میں اضافہ ہوگیا ہے۔ حال ہی میں نیپال نے بھارت کے تئیں نرم روی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرحد پر کئی سیکورٹی پوسٹ ہٹالئے ہیں، جنہیں کچھ عرصہ قبل قائم کیا گیا تھا۔ تاہم اس ضمن میں پوری صورتحال اُس وقت واضح ہوجائے گی جب پارٹی کی سٹینڈنگ کمیٹی کی اگلی میٹنگ منعقد ہوگی۔