لاہور: پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے ڈان اخبار کے مطابق، لاہور میں ایک خصوصی پراسیکیوٹر نے جمعہ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کو بتایا کہ ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے 9 مئی کے واقعات میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے کردار کی تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔
پراسیکیوٹر کے مطابق جے آئی ٹی نے عمران خان کو اشتعال انگیزی اور دیگر الزامات میں قصوروار پایا ہے۔ ایک الگ پیش رفت میں، لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم کے خلاف سخت قدم اٹھانے سے روکنے والا حکم واپس لے لیا ہے۔ اس سے قبل عدالت نے گذشتہ ہفتے پنجاب پولیس کو 9 مئی سے متعلق کیسز میں سابق وزیراعظم کے خلاف سخت قدم اٹھانے سے روک دیا تھا۔
'عمران خان کو اور ضمانت دینا درست نہیں'
جمعہ کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اے ٹی سی میں موجود تھے کیونکہ وہ 9 مئی کے فسادات سے متعلق پانچ مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری کی مدت ختم ہونے پر پیش ہوئے تھے۔ پراسیکیوٹر فرہاد علی شاہ نے انسداد دہشت گردی عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی نے تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔ عمران خان ان الزامات میں قصوروار پائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب اس کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری نہیں دی جا سکتی کیونکہ مزید شواہد اکٹھے کرنے کے لیے پی ٹی آئی سربراہ کی گرفتاری ضروری ہے۔
ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے عدالت نے کہا - گرفتاری کے حق میں مزید دلائل پیش کریں، تاہم اس معاملے میں سماعت کے دوران جج ابر گل خان نے خان کی پیشگی ضمانت میں 8 اگست تک توسیع کردی۔ فاضل جج نے پراسیکیوٹر اور وکیل دفاع کو عمران خان کی گرفتاری کے حق میں مزید دلائل دینے کی ہدایت کی۔ جج نے ہنگامہ آرائی سے متعلق متعدد مقدمات میں پی ٹی آئی کے نائب صدر شاہ محمود قریشی اور سابق جنرل سیکرٹری اسد عمر کی ضمانت قبل از گرفتاری میں بھی 8 اگست تک توسیع کر دی۔ پی ٹی آئی کے سربراہ کو جناح ہاؤس یا کور کمانڈر ہاؤس، عسکری ٹاور، شادمان تھانے اور مسلم لیگ (ن) کے دفتر پر حملوں کے علاوہ کلمہ چوک پر کنٹینر جلانے کے الزام میں ضمانت دی گئی تھی۔
لاہور ہائیکورٹ سے عمران خان کو جھٹکا
اس کے علاوہ لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عالیہ نیلم نے عمران خان کی درخواست مسترد کر دی جس میں انہوں نے 9 مئی کو تشدد کے معاملے میں پنجاب پولیس کو کارروائی سے روکنے کی استدعا کی تھی۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ غلام سرور نہنگ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ میں عبوری چالان (تفتیشی رپورٹس) جمع کرائے گئے، اس لیے حکم امتناعی واپس لیا جائے۔
عدالت نے کہا کہ کسی شخص کے لیے قانون تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان کے وکیل رانا انتظار حسین نے عدالت سے مختصر التوا کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ چیف وکیل سردار لطیف خان کھوسہ سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی وجہ سے دستیاب نہیں ہیں۔ جسٹس عالیہ نیلم نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر قانون واضح ہے ، کسی فرد کی خاطر اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ جج نے کہا کہ اگر درخواست گزار کے خلاف کیسز بوگس ہیں تو نچلی عدالتوں کو ان کو منسوخ کر دینا چاہیے تھا۔
'عمران خان پر غداری کا مقدمہ چل سکتا ہے'
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان پر غداری کا مقدمہ چل سکتا ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے کہا کہ انہیں الیکشن لڑنے کے لیے بھی نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ وزیر دفاع نے جمعہ کو جیو نیوز کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم نے 'سیاسی مقاصد' کے لیے سفارتی الفاظ استعمال کیے اور ان پر خفیہ دستاویزات کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے پر غداری کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: Pakistan Politics اگست 2023 میں معاملات نگران حکومت کے سپرد کر دیں گے، شہباز شریف
سنگین غداری سے متعلق قانون کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ پر آرٹیکل 6 لگایا جا سکتا ہے جس کے تحت ملزم کو سزائے موت اور عمر قید ہو سکتی ہے۔ حکومت پاکستان کے سابق پرنسپل سیکرٹری کے اعترافی بیان کو 'اہم' قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم کے معاون نے اپنے مخالفین کے الزامات کو درست ثابت کیا ہے۔
اپوزیشن کے خلاف کہانی گڑھنے کا الزام
عمران کے اعلیٰ معاون نے اعترافی بیان میں انکشاف کیا تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم نے گزشتہ سال واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کی طرف سے بھیجی گئی سفارتی معلومات (خفیہ معلومات) کو طاقت اور اپوزیشن کے خلاف کہانی گھڑنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ اسی طرح کے ایک بیان میں ایک روز قبل وزیر قانون اعظم خان نے کہا تھا کہ سیاسی مقاصد کے لیے سفارتی اشارے استعمال کرنے پر پی ٹی آئی کے سربراہ کو 14 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔