حیدرآباد (التمش عدیل): روس کے یوکرین پر حملے کے ایک برس مکمل ہوچکے ہیں۔ 24 فروری یوکرینیوں کے لیے ایک ایسے سوگ کا احساس لائے گی جس دن بہت سے یوکرینی اپنے ہی ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔ ابتدائی دنوں میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ جنگ چند دنوں میں ختم ہو جائے گی لیکن اب اسے ایک سال مکمل ہوگیا ہے اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس جنگ کا کوئی حل جلدی سامنے نہیں آئے گا۔
اس جنگ میں ابھی تک ہزاروں یوکرینی شہری جن میں سینکڑوں بچے بھی شامل ہیں ہلاک ہوچکے ہیں اور دونوں طرف کے دسیوں ہزار فوجی بھی مارے جا چکے ہیں۔ لیکن ہلاکتوں کی صحیح تعداد کی تصدیق کرنا ابھی بہت مشکل ہے کیونکہ جنگ ابھی بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں افراد حفاظت کی تلاش میں اپنے گھروں کو چھوڑنے پر بھی مجبور ہوئے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، یوکرین میں 13 فروری 2023 تک مجموعی طور پر 7,199 شہری ہلاک ہوچکے یہیں جبکہ 11,800 افراد زخمی ہوئے ہیں اور 80 لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے ہیں جبکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ دونوں طرف کے دسیوں ہزار فوجی بھی مارے جا چکے ہیں، لیکن ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہونے کا خدشہ ہے، مغربی حکام کے مطابق، لاکھوں فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔کوئی بھی فریق جنگ میں اپنے ہلاک شدہ فوجیوں کی قابل اعتماد اعداد و شمار فراہم نہیں کر رہا ہے۔
جنگ کیوں شروع ہوئی؟ ایک سال پہلے 21 فروری 2022 کو روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین کے مشرقی علاقے ڈونیٹسک اور لوہانسک کو آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کیا اور ایک ڈونیٹسک پیپلز ریپبلک (DPR) اور دوسرے کو لوہانسک پیپلز ریپبنل (LPR) کا نام دیا۔ دراصل 2014 میں جب ماسکو نے کریمیا کا الحاق کیا تو اس وقت سے یہ دونوں علاقے یوکرینی افواج اور روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے درمیان تنازعات کا مرکز تھے۔
اس تنازعہ میں ہزاروں افراد مارے گئے جبکہ دونوں طرف سے کتنے لوگ مارے گئے اس کی تصدیق کرنا مشکل ہے، لیکن روسی صدر پوتن نسل کشی کا لفظ استعمال کرتے رہے ہیں۔ زیادہ تر دنیا اب بھی کریمیا، ڈی پی آر اور ایل پی آر کو یوکرین کی سرزمین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ اس کے بعد 24 فروری 2022 کو ماسکو کے وقت کے مطابق صبح 6 بجے ایک ٹیلی ویژن خطاب میں، صدر پوتن نے اعلان کیا کہ ان کا ملک مشرقی یوکرین میں ڈی پی آر اور ایل پی آر کے لوگوں کی حفاظت کے لیے خصوصی فوجی آپریشن شروع کر رہا ہے۔
پوتن نے کہا کہ میں نے ایک خصوصی فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مقصد ان لوگوں کا تحفظ ہے جو آٹھ سالوں کے دوران کیف حکومت سے بدسلوکی اور نسل کشی کا شکار ہیں۔ اس آپریشن کے ذریعہ ہم یوکرین کو غیر فوجی اور غیر نازی بنانے کے ساتھ ساتھ ان مقدمات کی سماعت کریں گے جنہوں نے روسی فیڈریشن کے شہریوں کے خلاف متعدد خونی جرائم کا ارتکاب کیا۔ روسی صدر کے اس اعلان کے بعد روسی زمینی افواج نے شمال، شمال مشرق، مشرق اور جنوب میں چار اہم محاذوں سے یوکرین پر حملہ شروع کردیا اور توپ خانے و میزائلوں نے متعدد مقامات کو نشانہ بنایا۔
24 فروری کو یوکرین پر حملے کو روسی صدر نے امریکہ کی قیادت میں نیٹو فوجی اتحاد سے بھی جوڑا۔ پوتن نے کہا کہ روس، نیٹو کو مزید مشرق کی طرف پھیلنے سے روکنے اور یوکرین میں فوجی قدم جمانے سے روکنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کیونکہ اگر ایسا وہ نہیں کرتا ہے تو پھر اس کے ملک کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے اس لیے روس نہیں چاہتا کی یوکرین نیٹو کا حصہ بنے۔ وہیں یوکرین اور اس کے مغربی اتحادیوں نے روس کے تمام استدلال کو مسترد کر دیا ہے۔ مغرب کا کہنا ہے کہ یہ جنگ بلا اشتعال تھی اور اس کا مقصد یوکرینی زمین پر قبضہ کرنا اور یوکرین کو زیر کرنا تھا۔ نیٹو نے یوکرین کو اپنا رکن تسلیم کرنے کی کوشش نہیں کی ہے اور نیٹو خالصتاً دفاعی اتحاد ہے۔
کون سا ملک کسی کی حمایت کر رہا ہے؟ یوکرین کے اتحادی زیادہ تر مغربی ممالک ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین، جاپان، اور آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک نے اربوں ڈالر کی مالیت کی فوجی اور انسانی امداد کے ساتھ کیف کی حمایت کی ہے۔اس کے علاوہ نیٹو کے بہت سے اتحادی روسی افواج کو پسپا کرنے کے لیے کیف کو مسلح کرنے میں سب سے آگے رہے ہیں۔
وہیں روس کا اصل حمایتی اس کا پڑوسی اور قریبی اتحادی بیلاروس ہے۔ روس کی فوج نے بیلاروسی سرزمین کو حملے کے لیے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال بھی کیا۔ اس کے علاوہ ایران کو بھی روس کا قریبی سمجھا جارہا ہے اور اس پر ایرانی ڈرونز روس کو فروخت کرنے کا بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ بہت سے ایسے ممالک بھی ہیں جیسے کہ چین، بھارت اور ترکیہ جو کسی بھی فریق کی مکمل حمایت سے گریز کرتے ہیں۔
دریں اثنا، جنگ ابھی بھی جاری ہے اور مغربی ہتھیاروں کی سپلائی کی مدد سے یوکرین کی افواج بھرپور جوابی حملے کرنے میں مصروف ہے۔ دونوں فریق جنگ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں اور اب دونوں فریق ڈونباس کے علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے خونریز لڑائیوں میں مصروف ہیں، یہ ڈونباس علاقہ دراصل ڈونیٹسک اور لوہانسک علاقوں پر مشتمل ہے۔
اس جنگ نے عالمی خوراک اور توانائی کے شدید بحران کو بھی جنم دیا ہے کیونکہ یوکرین اور روس روایتی طور پر خوراک کے عالمی برآمد کنندگان ہیں اور تنازعہ نے سپلائی چین کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ روس توانائی یعنی تیل اور گیس کا برآمد کنندہ بھی ہے، روس نے پابندیوں کے جواب میں مغرب کو توانائی کی سپلائی میں کمی کی ہے جس کی وجہ سے خاص طور پر یورپ میں مہنگائی کو ہوا دینے اور زندگی گزارنے کے بحران کو گہرا کیا ہے۔