سعودی عرب کے انسداد بدعنوانی کمیشن کی طرف سے مرکزی بینک کے عہدیداروں، پولیس اور دوسرے سرکاری ملازمین کی ساز باز سے بے نامی کھاتوں اور ذرائع سے خطیر رقم بیرون ملک منتقل کرنے کے کئی نئے معاملوں کا پتا لگایا ہے۔
-
#هيئة_الرقابة_ومكافحة_الفساد #وطن_بلا_فساد pic.twitter.com/9p540pw7We
— هيئة الرقابة ومكافحة الفساد (@nazaha_gov_sa) January 27, 2021 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data="
">#هيئة_الرقابة_ومكافحة_الفساد #وطن_بلا_فساد pic.twitter.com/9p540pw7We
— هيئة الرقابة ومكافحة الفساد (@nazaha_gov_sa) January 27, 2021#هيئة_الرقابة_ومكافحة_الفساد #وطن_بلا_فساد pic.twitter.com/9p540pw7We
— هيئة الرقابة ومكافحة الفساد (@nazaha_gov_sa) January 27, 2021
انسداد بدعنوانی کمیشن کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کاروباری افراد، سرکاری ملازمین اور غیر ملکی عناصر پر مشتمل اس گروہ نے مجموعی طور پر مختلف ذرائع سے 11 ارب 50 کروڑ ریال کی رقم بیرون ملک منتقل کی ہے۔ اس سلسلے میں آج 32 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مزید تحقیقات جاری ہیں۔
ذرائع نے مزید کہا کہ فیلڈ انوسٹی گیشن، تجارتی اداروں کے بینک کھاتوں کے تجزیے اور کسٹم درآمد کی تفصیلات کو مربوط کرنے کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ ان تجارتی اداروں کے کھاتوں میں جو بے نامی نقد رقم جمع کی گئی ہے، اس کی مالیت 11.59 ارب ریال ہے۔ یہ خطیر رقم مملکت سے باہر منتقل کی گئی ہے۔ اس کیس میں 5 غیر ملکی عناصر کو بینک میں جمع کرانے کے لیے جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کے قبضے سے 9.78 ملین ریال برآمد کیے گئے ہیں۔ وہ یہ رقم بینک کے ذریعہ بیرون ملک بھیجنا چاہتے تھے۔
انسداد بدعنوانی کمیشن نے اس کیس میں ملوث ہونے کے شبے میں 7 کاروباری افراد، 12 بینک ملازمین، پولیس افسر، 5 مقامی اور 2 غیر ملکیوں کو رشوت لے کر منی لانڈرنگ، جعلسازی اور غیر قانونی مالی منافع خوری، پیشہ وارانہ اثر و رسوخ کے ناجائز استعمال اور خطیر رقم چھپانے کے الزامات کے تحت تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان: ڈینیئل پرل قتل کے ملزمین کی رہائی کا حکم
اس حوالے سے سامنے آنے والا پہلا کیس ایک مقامی کاروباری شخصیت کا ہے جس نے خطیر رقم بیرون ملک بھیجی ہے۔ اس نے اپنے، اپنی بیوی اور اپنے بیٹے کے نام متعدد فرضی اور جعلی کمپنیاں قائم کیں۔ اس کے بعد ان کے ناموں کے ساتھ بینک کھاتے تیار کیے۔ ماہانہ بنیادوں پر ان بینک کھاتوں میں متعدد افراد کے ذریعہ رقم جمع کرائی گئی۔ منی لانڈرنگ کو چھپانے کے لیے ایک پولیس افسر کو 3 لاکھ ریال اور ایک دوسرے شخص کو چالیس لاکھ ریال کی رقم رشوت کے طور پر دی گئی۔
دوسرے کیس میں پانچ کاروباری شخصیات کی جعلی کمپنیوں، ان کے بینک کھاتوں اور منی لانڈرنگ کے معاملے کا انکشاف ہوا ہے۔ انہوں نے غیر ملکی شہریوں کے بینک اکائونٹس کو ماہانہ کی بنیاد پر رقوم کی بیرون ملک منتقلی کے لیے استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔
تیسرے مقدمہ میں ایک بینک برانچ کے مینیجر کو منی لانڈرنگ میں ملوث پایا گیا ہے جو جعلی بینک کھاتے کھول کر غیر ملکی افراد کو ان کے ذریعہ رقوم بھجوانے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔