عراق کے شمالی علاقے کردستان کے سِجار میں واقع 'جوین' نامی ایک یتیم خانہ ہے۔
اس میں اُن یزیدی بچوں کو رکھا جاتا ہے، جن کے ماں، باپ یا اِن میں سے کوئی ایک شدت پسند تنظیم 'داعش' کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے ہیں۔
دعش کے حملے میں اپنے باپ کو کھو دینے والی 10 سالہ نیدِما ہیں جن کا کہنا ہے کہ یہاں کوئی زندگی نہیں ہے۔ ان کا کیمپ چھوٹا اور گندگی سے بھرا ہوا ہے۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کی راہیں آسان نہیں ہیں۔ اسی لیے وہ یہاں ہیں تاکہ ان کی مدد کی جا سکے۔
سنہ 2014 میں کچھ یزیدی افراد کے تعاون سے اس یتیم خانے کی شروعات کی گئی ہے۔
سماجی کارکن شمال سیلِم کا کہنا ہے کہ یہاں تین طرح کے بچے ہیں۔ ایک وہ جن کے ماں، باپ دونوں ہلاک ہو گئے ہیں۔ دوسرے وہ جن کے باپ نہیں رہے، اور تیسرے وہ جن کی ماں نہیں رہی۔ وہ ان بچوں کا خصوصی خیال رکھتی ہیں جن کے ماں باپ دونوں اس دنیا میں نہیں ہیں۔
یتیم خانے میں 5 سے 13 برس کے بچوں کو رکھا جاتا ہے۔ انہیں کھانے پینے اور تعلیم سے لیکر طبی خدمات جیسی ہر طرح کی سہولیات مہیا کرائی جاتی ہے۔
جن بچوں کے والدین میں سے کوئی ایک زندہ ہے وہ دن میں اسے اپنے پاس رکھتے ہیں، تاہم رات میں انہیں کیمپ میں ہی رکھتے ہیں جہاں وہ دیگر بچوں کے ساتھ سوتے ہیں۔
یتیم خانے کے نگراں کوا ایدو کھتری کا کہنا ہے کہ جووین ہاوس میں وہ بچوں کو کبھی بھی ایسا محسوس نہیں ہونے دیتے، کہ انہیں کسی سے کمتر ہونے کا احساس ہو۔ ان کا دروازہ ان سبھی بچوں کے لیے کھلا ہوا ہے، جنہوں نے اپنے والدین کھو دیے ہیں۔
فی الحال یتیم خانے میں 30 بچوں کی رہائش ہے۔ ان بچوں کو تمام طرح کی سہولیات مہیا کرانے کے ساتھ انگریزی، عربی اور کردش زبان کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
حال ہی میں داعش کے قبضے سے آزاد ہونے والے 9 سالہ دیار داود عمر نامی بچے کا کہنا ہے کہ یہ جگہ ان کے قبضے سے بہتر ہے۔
عراق کی داہوک انتظامیہ کی جانب سے اس سے بڑے یتیم خانے کے لیے زمیں مختص کر دی ہے۔
غور طلب ہے کہ شمالی کردستان میں 2 لاکھ یزیدیوں سمیت 10 لاکھ افراد مختلف کیمپز میں رہنے کو مجبور ہیں، جو سنہ 2014 میں داعش کے حملوں کے دوران بے گھر ہو گئے تھے۔