سوڈان کے دور دراز علاقے میں واقع ام راکوبہ کیمپ میں پہلے سے ہی صلاحیت سے زیادہ لوگ پناہ گزیر ہیں۔
ام راکوبہ کیمپ کا مقصد ان 5 ہزار ایتھوپیائی پناہ گزیروں کو پناہ دینا ہے جو تیگرائی خطے میں تشدد کے بعد وہاں سے نکل کر یہاں پہنچے ہیں حالانہ یہاں دوگنا افراد رہائش پزیر ہیں۔
کیمپ چلانے والی ایجنسی یو این ایچ سی آر میں ایمرجنسی رسپانس کے فیلڈ کوآرڈینیٹر محمد رفیق ناصری کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی دیکھ بھال کرنا مشکل ہے۔
یہ کیمپ تقریباً دو ہفتے پرانا اور سوڈان میں کافی مشکل بھرا ہے کیونکہ ایندھن کی قلت، معاشی صورتحال کے درمیان یو این ایچ سی آر اور ڈبلیو ایف پی کے لئے یہاں کام کرنے میں بہت پریشانی ہو رہی ہے۔
یو این ایچ سی آر کے فیلڈ کوآرڈینیٹر محمد رفیق ناصری کا کہنا ہے کہ ''کیمپ میں نو ہزار سے زیادہ لوگوں کی دیکھ بھال کرنا، گرم کھانا فراہم کرنا ایک چیلنج ہے۔ ہم یہاں کیمپ میں معاشرتی فاصلے نہیں رکھ سکتے ہیں۔ یہ واقعی ایک بڑا چیلنج ہے جو بڑھ رہا ہیں کیونکہ تعداد بڑھ رہی ہے۔ آج ایک ہزار لوگوں کا ایک اور قافلہ کیمپ پہنچا ہے۔''
چار نومبر سے تیگرائی خطے میں شروع ہونے والے تشدد کے بعد 40 ہزار سے زیادہ افراد سوڈان پہنچ چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ ائندہ چھ مہینوں میں تقریباً بیس لاکھ افراد یہاں پہنچ سکتے ہیں۔
یہ تنظیم اب ام راکوبہ کیمپ کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے ایک دوسرے کیمپ کو کھولنے کی تیاری کر رہی ہے۔
ایتھوپیا کے وزیر اعظم آبے احمد نے تیگرائی علاقے میں فوج کشی کے قبل تیگرائی حکمراں کو ہتھیار ڈالنے کے لئے 72 گھنٹے کا الٹیمیٹم دیا تھا۔ انہوں نے شہر کے پچاس لاکھ باشندوں کو گھر کے اندر رہنے اور اسلحہ چھوڑنے کی ہدایت دی تھی۔
کیمپ میں پناہ گزینوں کے گھر میں کیا ہو رہا ہے اس کی خبر ان کے پاس نہیں ہے۔ پناہ گزیر جس نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ امن چاہتے ہیں۔
کیمپ پہنچے ایک فیوجی اتسباہا گتصادق کا کہنا ہے کہ ''ملک میں امن نہیں ہے۔ یہ بات مجھے بہت مایوس کرتی ہے کہ ملک میں امن نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک قبیلہ دوسرے کو مار رہا ہے۔ یہ بہت مشکل ہے۔''
واضح ہو کہ تیگرائی پیپلز لبریشن فرنٹ (ٹی پی ایل ایف) کی قیادت میں 1991میں ایتھوپیا کی فوجی ڈیرگ حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا تھا۔ 2018 میں آبے کے وزیر اعظم بننے سے پہلے تک اس مشرقی افریقی ملک کے سیاسی منظر نامے پر فوج کا غلبہ تھا۔
آبے اور ٹی پی ایل ایف میں کشیدگی اس سال اس وقت پیدا ہوئی جب کورونا وائرس کی وجہ سے قومی انتخابات کو ملتوی کرنے کے اعلان کے باوجود ٹی پی ایل ایف نے اپنے انتخابات منعقد کرائے۔ اس ماہ کے اوائل میں جب ٹی پی ایل ایف پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس نے فوج پر حملہ کیا ہے تو کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا۔