جہاں کشمیر اپنے آبشار، صحت افزا مقامات اور قدرتی خوبصورتی کے لیے پوری دنیا میں مقبول ہے۔ وہیں وادی کے نوجوانوں پر منشیات کے لت ہر گزرتے روز کے ساتھ اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے۔ جہاں پہلے یہاں کے نوجوان چرس جیسے منشیات کا استعمال کر رہے تھے تاہم اب ہیروئن کا شکار بھی ہو رہے ہیں۔
جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر میں قیام ڈرگ ڈی اڈیکشن مرکز انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز institute of mental health and neurscience کے ڈاکٹروں نے دعویٰ کیا ہے کہ "گزشتہ تین برسوں میں منشیات سے چھٹکارا پانے کی غرض سے اُن کے پاس آنے والے مریضوں کی تعداد میں 1500 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ جہاں سنہ 2016 میں 489 مریض علاج کے لیے آئے تھے وہیں سنہ 2019 میں 7420 مریض اور پھر سنہ 2020 میں 3536 مریض سامنے آئے۔
"ڈاکٹروں نے دعویٰ ہے کہ"سنہ 2020 میں مریضوں کی تعداد میں آئی گراوٹ کی وجہ عالمی وبا کورونا وائرس کے پیش نظر عائد پابندیاں ہیں اور سنہ 2019 کے اعداد و شمار پانچ اگست کے تاریخی فیصلے سے پہلے تک کا ہے۔"
وہیں کشمیر میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے امثال شائع ہوئی تحقیق "پیٹرن آنے پریوالانس اف سبسٹنس یوز انڈ دپینڈنسی ان کشمیر : اسپیشل فوکس آن آوپیائڈز" Pattern and prevalence of substance use and dependence in two districts of Union Territory of Jammu &Kashmir: Special focus on opioids نے خلاصہ ہوا ہے کہ وادی کے دو اضلاع میں سب سے زیادہ استعمال ہیروئن کا ہوتا ہے۔
آوپیائڈز کا استعمال ویسے تو درد کم کرنے والی ادویات میں کیا جاتا ہے تاہم وادی میں ان کا استعمال بطور منشیات بھی ہو رہا ہے۔
تحقیق کے مطابق سرینگر اور اننت ناگ میں ان منشیات کا استعمال سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
حال ہی میں جموں و کشمیر پولیس کے ڈی آئی جی شمالی کشمیر سجیت کمار نے قرآن کا حوالہ دیکر نوجوانوں کو منشیات سے دور رہنے کی تاکید کی تھی۔
رواں ماہ کی دس تاریخ کو اُنہوں نے قران کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قرآن کے سورہ پانچ، آیت 90 میں بھی منشیات کو حرام قرار دیا ہے
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ سرکاری، غیر سرکاری تنظیمیں، مذہبی رہنما و ماہرین منشیات کے خلاف عوام کو تاکید کرتے آئے ہیں تاہم اس کے استعمال میں آئے روز اضافہ ہی دیکھا جا رہا ہے
کیوں بڑ رہا ہے منشیات کا استعمال؟
پولیس ڈرگ ڈی ایڈیشن سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مظفر خان کا کہنا ہے کہ "منشیات کی جال میں پھسنے کی تین بڑی وجوہات ہے۔ پہلی، جوانی کے جوش میں دوستوں کے دباؤ میں اس راستے پر چلنے، دوسرے ذاتی پریشانیوں کا شکار اور تیسرے جو معصومیت اور غلط فہمی کا شکار ہو کر اس لت میں پھنس جاتے ہیں
ان کا مزید کہنا ہے کہ " کسی کو بھی راتوں رات منشیات کی لت نہیں لگتی۔ ان کے مطابق منشیات میں مریض کا پہلا ہفتہ ان کے لیے کافی اہم ہوتا ہے۔
اس دوران اگر مریض ان کے پاس آتا ہے تو اس کو کم وقت میں بچایا جا سکتا ہے ۔
یہ بھہ پڑھیں:
ان کے مطابق منشیات کی لت لگنے کے بعد اس کی عادت چھوڑنے میں وقت درکار ہوتا ہے لیکن علاج ہوتا ہے
اپنے تجربے کا تذکرہ کرتے ہوئے اُن کا مزید کہنا ہے کہ ایک مریض ان کے پاس آیا ہے جس کو یہ تک نہیں پتہ ہوتا کہ اُس کا حادثہ کب ہوا، ہڈیاں کب ٹوٹی تاہم آج وہیں ہمارے محکمے میں ملازمت کر کے اچھی زندگی بسر کر رہا ہے اور اپنے گھروالوں کو پال رہا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ جب لوگ ہمارے پاس اپنے عزیز بطور مریض لاتے ہیں تو اُن کے آنکھوں میں دُکھ کے آنسو ہوتے ہیں اور جب واپس لینے آتے ہیں تب بھی آنسو ہوتے ہیں لیکن خوشی کے۔