کشمیر وادی میں لاک ڈاؤن کے دوران اگرچہ انتظامیہ کی جانب سے آئے روز یہ اعلانات کئے جاتے ہیں کہ محنت کش اور مزدور پیشہ افراد کی مدد کی جارہی ہے لیکن ان اعلانات اور بلند و بانگ دعوؤں کی پول اس وقت کھل جاتی ہے جب مدد کے نام پر مستحق اور ضرورت مند افراد میں کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنے کے نام پر مزاق کیا جاتا ہے۔
جی ہاں! سرینگر کے بیچوں بیچ واقع حبہ کدل علاقے میں غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزرانے والے کنبوں کی تعداد کم نہیں ہے جبکہ اس علاقے میں وہ لوگ بھی رہ رہے ہیں جو دن میں کما کر شام کو اپنے اہل وعیال کے لیے روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔ تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ مکمل طور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ درجنوں کنبے ایسے ہیں جن کو دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے نصیب ہورہی ہے۔
غریبوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں
ان مستحق اور غریب لوگوں نے ضلع انتظامیہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا انہیں راشن اور دیگر ضروریہ اشیاء فراہم کرنے کے نام پر استحصال کیا جارہا ہے۔
اگرچہ محلہ کمیٹی کے زعماؤں نے متعلقہ نوڈل آفسر کے دفتر میں علاقے میں رہ رہے غریب کنبوں کی فہرست تمام لوازمات کے ساتھ جمع بھی کی ہے۔ تاہم چند کنبوں کو چھوڑ باقی مستحقین کو کسی بھی قسم کی مدد فراہم نہیں کی گئی۔علاقے کے ان مستحق افراد کا کہنا ہے کہ 'اگرچہ انہوں نے ضلع انتظامیہ کے دفتر میں اس حوالے سے کئی چکر لگائے لیکن ان پر گیٹ سے ہی ڈھنڈے برسائے گئے۔ ایسے میں جائے تو کہاں جائے۔!ادھر محلہ کیمیٹی کے صدر کا کہنا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے زائد عرصے سے کمیٹی علاقے میں موجود مالی لحاظ سے کمزور طبقوں کو کھانے پینے اور دیگر ضروری چیزوں کی فراہمی کو یقینی بنا رہی لیکن اب دن بدن ان کے لیے بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔جموں و کشمیر خاص کر وادی کشمیر میں کوروناوائرس کے متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں ابھی نرمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ ایسے میں انتظامیہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غریب طبقوں کی ہر لحاظ سے مدد فراہم کریں ۔ورنہ پیٹ کی بھوک انہیں گھروں سے نکلنے پر مجبور کریں گی۔