بہار کے ضلع گیا اور جہان آباد ضلع کے سرحد پر واقع ابراہیم لودھی پور گاؤں میں چھ سو سالہ قدیم مسجد ہے، جو آج بھی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ یہاں کے لوگ اس مسجد کی تاریخی حیثیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بادشاہ ابراہیم لودھی کے دور حکومت میں اس مسجد کو قریب 1536 عیسوی میں تعمیر کرایا گیا تھا حالانکہ اس کے تعلق سے یہاں لوگوں کے پاس کوئی دستاویز نہیں ہیں کہ اس مسجد کو بادشاہ ابراہیم لودھی نے تعمیر کرایا تھا یا پھر بادشاہ کے کسی قریبی نے اسکی تعمیر کی تھی۔
البتہ یہاں کے لوگ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ مسجد ابراہیم لودھی کے دور کی ہی ہے، تاہم آج اس تاریخی مسجد کی عمارت خستہ حالی کا شکار ہو رہی ہے۔
مسجد کی خستہ حال پر مقامی لوگوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ابراہیم لودھی پور گاؤں میں مسلمانوں کی آبادی نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ مسجد میں پنچ وقتہ نماز ادا نہیں کی جاتی ہے، صرف عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز ادا ہوتی ہے۔
یہاں کے لوگوں کی شکایت ہے کہ آج تک بہار سنی وقف بورڈ نے اس مسجد کو اپنے ماتحت لے کر کسی کمیٹی کی تشکیل نہیں کی ہے اور نہ ہی حکومت کے محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے مسجد کی حفاظت اور تزیین کاری کے لیے کوئی پہل کی گئی ہے'۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ آزادی سے قبل ابراہیم لودھی پور گاؤں میں مسلمانوں کی آبادی تھی جو کہ سرکاری دستاویزات میں اس کا ذکر بھی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی گاؤں میں تھی اس بات کی گواہ نہ صرف لودھی مسجد مزید ہے بلکہ ابراہیم پور میں واقع قبرستان بھی ہے، حالانکہ اب قبرستان کا بھی وجود ختم ہو گیا ہے'۔
لودھی مسجد سے نصف کلومیٹر پر آباد ضلع گیا کے کنڈوا گاؤں کے رہنے والے خورشید عالم اس تعلق سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے آباؤ اجداد سے سنتے آئے ہیں کہ تقسیم ملک کے وقت یہاں فساد ہوا اس میں کچھ لوگ شہید کر دیے گئے تو کچھ گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے'۔
مسجد کی عمارت خستہ حالی کا شکار ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی دیکھ ریکھ نہیں کی گئی، کڈوا گاؤں سمیت آس پاس کے مسلم گاؤں کے لوگ جب عید بقرعید کی نماز ادا کرنے جاتے ہیں انہیں وہاں کے لوگوں کی طرف سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔ اس علاقے کے لوگ آپسی اتحاد کے ساتھ رہتے ہیں۔ کڈوا گاؤں میں ہزاروں کی آبادی میں صرف چالیس گھروں کی آبادی مسلمانوں کی ہے لیکن آج کے وقت میں کسی کو کسی سے پریشانی نہیں ہے سب مل جل کر رہتے ہیں۔
ابراہیم لودھی کے نام سے بنی لودھی مسجد کی خوبصورتی اور اس کے آس پاس کا دلکش منظر آج بھی لوگ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں۔ دراصل یہ مزید پھلگوندی کے کنارے پر آباد ہے۔ یہ علاقہ ریت اور پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے، مسجد کی دیوار پر نقاشی اور اس کے ڈیزائن بادشاہوں کے زمانے میں بنی مسجدوں سے ملتے ہیں۔ اس کی عمارت کی مضبوطی ایسی کہ مرمت کے بغیر مسجد کا حصہ بلندی سے کھڑا ہے۔ مسجد کی بلندی سے محسوس ہوتا ہے کہ علاقہ پہلے اونچائی پر تھا۔ مسجد کے صحن کی دو طرف دیواریں گر گئی ہیں جبکہ سامنے واقع آزان گاہ اور ایک دوسری طرف کے صحن کی دیوار دھنس گئی ہے۔
کڈوا علاقے کے مسلمان تزئین کاری کے ذریعے اس تاریخی مسجد کو بچانے کے جتنے فکرمند ہیں اس سے کہیں زیادہ اس علاقے کے کئی ہندو بھائی بھی گنگا جمنی تہذیب کی مثال پیش کرنے کے خواہاں ہیں۔
علاقہ کے سماجی کارکن جگت بھوشن کہتے ہیں اس مسجد کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی نہیں ہونے کے باوجود مسجد کی عمارت آج تک قائم ہے جس سے واضح ہے کہ یہاں کے لوگوں نے بھی اس مسجد کی حفاظت کی ہے۔
- مزید پڑھیں: کولکاتا: تابناک ماضی کے حامل ملی ادارے تنزلی کے شکار کیوں؟
- ممبئی: جامع مسجد کے قدرتی حوض(تالاب) کے ایکسکلوژیو فوٹیج
- بھوپال کا چمن محل، مغل آرٹ کا شاندار نمونہ
- سرسید ہاؤس کے دونوں کنویں تاریخی اہمیت کے حامل
سنی وقف بورڈ اور محکمہ آثارقدیمہ کی بے توجہی کا شکار یہ مسجد کو کبھی بھی یہاں کے لوگوں نے مسلمانوں کو عید بقر عید کی نماز ادا کرنے سے روکا نہیں۔ جگت بھوشن کہتے ہیں کہ اس علاقے کو ٹورازم کے نظریے سے حکومت کو فروغ دینا چاہیے کیونکہ کہ قریب میں ہی ہندو مذہب کا ایک بڑا مذہبی مقام پر " برابر پہاڑی ہے" ساتھی یہ مسجد پھلگو ندی کے کنارے پر واقع ہے۔ اگر اس کا فروغ ہو تو یہ علاقہ سیاحت کے لیے بہتر ثابت ہوگا۔