انھوں نے کہا کہ تشدد کی کسی بھی حالت میں وکالت نہیں کی جاسکتی چاہے وہ سرکار اور انتظامیہ کی طرف سے ہو یا مظاہرین کی طرف سے۔ اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جس طرح اپنے ہی شہریوں کے خلاف بدلہ لینے کی بات کہی ہے اور جس طرح ایک آڈیو پیغام کے ذریعہ ریاست کا ایک اعلی افسر وزیر اعلی کے حوالے سے لوگوں کے ’ٹانگ ہاتھ‘ توڑنے کا حکم دے رہا ہے، وہ فاشزم ( فسطائی) اور سفاکیت کی علامت ہے۔
ایک منتخب سرکار کس طرح اپنے عوام کے جذبات کو سمجھنے کے بجائے ان کے خلاف پولیس ایکشن کا حکم دے سکتی ہے، بلاشبہ یہ جو کچھ ہورہا ہے اس نے انگریزوں کے زمانے کی یاد تازہ کردی ہے۔اپنے ہی شہریوں کے خلاف بدلے کی بات اور لاٹھی کا استعمال کرنے کے بجائے عقل کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔
اترپردیش میں پولس کی گولی سے پندرہ مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں،جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو تشدد محدو د تھا وہ پوری ریاست میں پھیل گیا ہے۔ سرکار اگر لوگوں کو ڈرا نا چاہتی ہے تو وہ اس حقیقت کو سمجھ لے کہ اس ملک کے لوگ ڈرپوک نہیں ہیں، ہاں وہ پرامن ہیں، ان کے ڈی این اے میں تشدد سے بیزاری ہے اور ان میں امن پسندی، جمہوریت اور سیکولرزم رچا بسا ہوا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند سبھی سرکاروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ پرامن احتجاج کو روکنے کی ہرگز کوشش نہ کرے اور افہام و تفہیم کی راہ سے معاملات کا حل نکالے اورناہل اور غافل پولس انتظامیہ اور تشدد کا استعمال کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کرے،نیز جن کی جانیں گئیں ہیں ان کے اہل خانہ کے لیے معقول معاوضہ کا اعلان کرے اور زخمیوں کے علاج و معالجہ کا فوری بندوبست کرے۔
جمعیۃ علماء ہندنے اپنی تمام یونٹوں سے اپیل کی ہے کہ وہ زخمیوں کے علاج معالجہ اور متاثرین کو راحت پہنچانے کے لیے منظم طور پر کام کریں اور متوفیوں کی پر امن تجہیز و تکفین میں شامل ہوں، نیز جہاں کہیں بھی پولس پرامن شہریوں پر زور زبردستی کرے اور بے قصوروں کو گرفتار کیا جائے تو فورا ً جمعیۃ علماء کے ذمہ داروں سے رابطہ قائم کریں۔
جمعیۃ علماء کے تمام رضا کاروں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ میں مظاہرین کو تشدد سے بازرکھیں اور اشتعال انگیز بیانات اور افواہوں سے متاثر نہ ہوں۔