اترپردیش اردو اکیڈمی سے حق اطلاعات کے تحت کئی نکات پر سال 13-2012 تا2019 کے درمیان کے اخراجات کی تفصیلات طلب کی گئی تھیں جسے اکیڈمی نے آر ٹی آئی ایکٹ کے دفعہ 4(2)(خ)(5)کے تحت اس ضمن میں کچھ بھی جواب نہیں دیا تھا۔
آر ٹی آئی اکٹوسٹ و سماج کارکن سلیم بیگ نے بات چیت میں بتایا کہ اکیڈمی نے آر ٹی آئی ایکٹ کے دفعہ4 کی من مانی تشریح کرتے ہوئے اطلاعات فراہم کرنے سے منع کردیا ہے جو کہ حق اطلاعات کے خلاف ہے۔ اس کے لئے وہ اطلاعات کمشنر کا دروازہ تو کھٹکھٹائیں گے ہی ساتھ ہی اس ضمن میں انہوں نے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کوا یک خط لکھ کر اکیڈمی کے گذشتہ دس برسوں کے اخراجات کی جانچ سی بی آئی سے کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
سلیم کے مطابق اکیڈمی نے ان کے ذریعہ طلب کی گئی ایسی بنیادی سوالات کا جواب دینے سے انکارکردیا ہے جو کہ اکیڈمی کی ویب سائٹ پر ہمہ وقت موجود ہونی چاہئے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک اکیڈمی جو اردو کے فروغ کے لیے ہی کام کررہی ہو اسے اس کے فروغ پر خرچ کی گئی تفصیلات دستیاب کراناہی طویل لگتا ہے ۔وہ اکیڈمی کے ذریعہ اطلاعات نہ دینے کو اس کی مالی خرد برد سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اکیڈمی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے اس لئے وہ اطلاعات فراہم کرنے سے خائف ہے۔
دلچسپ ہے کہ ایک جانب جہاں سپریم کورٹ سی جی آئی دفتر کو بھی آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت لا نے کا فیصلہ سناکر آر ٹی آئی کے ذریعہ سی جی آئی کے دفتر تک عوام الناس کی رسائی کا راستہ کھول رہا ہے تو وہیں اردو اکیڈمی کا بنیادی باتوں پر آر ٹی آئی کے سوالات پر براہ راست جواب نہ دے کر اس میں ٹال مٹول کافی حیران کن ہے۔