ظاہری طور پرشیکھر معذور لگتا ہے، مگراس کا دل خوداعتمادی اور عزم مصمم کا محور ہے۔یہاں تک کہ پہاڑ بھی اس کے عزم کے سامنے جھک گئے ہیں۔
گرچہ مکمل طور پر اہل لوگوں کو کسی بھی کھیل میں مہارت حاصل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے ، لیکن شیکھر نے معذوری کے باوجود کامیابی حاصل کی۔
شیکھر نے66 دوڑ کے مقابلوں اور 14 لمبی دوڑ کے مقابلوں میں حصہ لیا۔ کنیاکماری سے کھاردنگ لا، تک سائیکل چلانے کے مقابلے میں حصہ لیا، جو 68 دن اور 4،100 کلومیٹر طویل تھا۔ شیکھر ماؤنٹ ایورسٹ، ماؤنٹ کلیمینجارو اور ماؤنٹ ایلبرس پر بھی چڑھا ہے۔
شیکھر کے معذور ہونے کی وجے افسوس ناک ہے۔
اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ، شیکھر نے نلگنڈہ کے سرکاری کالج میں داخلہ لیا۔ ایک دن اپنے دوست سے بات کرتے ہوئے وہ اتفاقی طور پر دیوار سے گر گیا۔ گرتے ہوئے، اس نے سہارے کے لیے بجلی کے تاروں کو تھام لیا۔ اسے شدید چوٹ آئی اور اس حادثے کے بعد علاج کے دوران اس کا دایاں بازو اور بائی ٹانگ کو کاٹنا پڑا۔
اس حادثے کے بعد شیکھر نے خودکشی کرنے کی بھی کوشش کی بعد میں احساس ہوا کہ خودکشی اس کے حق میں نہیں ہے۔ پھر اس نے حیدرآباد کے گچی باولی اسٹیڈیم میں داخلہ لیا جہاں اس نے اپنی طرح کے کئی لوگوں کو دیکھا، پھر اس نے مصنوعی ٹانگ لگوائی اور زندگی کی ایک نئی شروعات کی۔
اس نوجوان نے اس کے ساتھ ہوئے دردناک حادثے کے باجود ہار نہیں مانی، اور اپنی زندگی کو ایک چلینج کے طور پر لیکر جدوجہد کی اور کامیابی کے ریکارڈز بنائے۔