'اپنوں نے نہیں اپنایا تو اجنبیوں کو ہی اپنا بنا لیا' یہ جملہ ہمارا نہیں ہے بلکہ دہلی کے 'گرو وشرام وردّھ آشرم' میں گذشتہ ڈھائی برس سے رہ رہے ایک بوڑھے شخص کا ہے، جنھوں نے اس آشرم کو ہی اپنا گھر سمجھ لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں انھیں ہر وہ چیز میسر ہے جو گھر پر بھی ملنے سے قاصر تھیں، انہوں نے کہا کہ وہ یہاں ہر برس نئے سال کا جشن بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں، اور خوش ہیں۔
ایسے بہت سے افراد ہیں جو اس آشرم میں پناہ لیے ہوئے ہیں، مختلف مذاہب کے بزرگ اسی آشرم کو اپنا گھر سمجھ رہے ہیں۔
کچھ خواتین ایسی ہیں کہ انھیں خبر ہی نہیں موجودہ وقت کون سا ہے، انھیں بس یاد ہے تو اتنا کہ ان کے گھر والے انھیں چھوڑ چکے ہیں۔
ان بزرگ خواتین کو عمر کے آخری پڑاؤ پر بھلے ہی دنیا جہان کی باتیں معلوم نہیں، لیکن کس علاقے میں ان کا گھر ہے، کتنے افراد ان کے خاندان میں ہیں، وہ سب معلوم ہے۔
خاندان سے بچھڑنے کا غم انھیں آج بھی ہے، ان کی اولادیں انھیں سڑک یا کسی آشرم میں چھوڑ کر اپنی نجی زندگی میں مصروف ہیں، لیکن یہ انتظار بھری آنکھیں آج بھی ان کے انتظار میں راہ تک رہی ہیں۔
جیوتی جو 2003 سے اس آشرم میں بزرگوں کی دیکھ بھال کررہی ہیں، نے بتایا کہ 2003 سے دہلی کے بدر پور کے قریب گوتم پوری میں یہ آشرم چلایا جارہا ہے۔ اس میں وہ سارے بزرگ یہاں لائے جاتے ہیں جو ہمیں سڑک کے کنارے ایک انتہائی قابل رحم حالت میں ملتے ہیں، یا انھیں ان کے گھر والے چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم ان بزرگ افراد کی بازآبادکاری کرتے ہیں اور انہیں یہاں لاتے ہیں۔ اور ان کا یہاں ہر طرح کا علاج کیا جاتا ہے۔
یہ آشرم بے سہارا لوگوں کا سہارا ہے، کیوں کہ یہاں تمام بزرگ جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں وہ یہاں ایک کنبہ کی حیثیت سے رہ رہے ہیں اور تمام تہوار اکٹھے مناتے ہیں۔