ریزرو بینک آف انڈیا RBI نے ربیع کی بوائی میں تیزی، زراعت اور اس سے متعلق سرگرمیوں میں نئے روزگار ابھرنے کے درمیان کورونا وائرس کے نئے ورژن اومیکرون کی آمد کے بعد سے اس کے کیسز میں ہورہے اضافہ اور عالمی واقعات سے بھارتی معیشت کے متاثر ہونے پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے رواں مالی برس میں ترقی کے اپنے سابقہ اندازے 9.5 فیصد پر برقرار رکھا۔
ریزرو بینک کے گورنر شکتی کانت داس نے مانیٹری پالیسی Rbi Monetary Policy کمیٹی کی تین روزہ میٹنگ کے بعد جاری کردہ اپنے ایک بیان میں یہ اندازہ ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر کے اثرات میں کمی اور تیز رفتار ویکسینیشن کی وجہ سے ملکی اقتصادی سرگرمیاں کورونا وائرس پہلے دور کی سطح پر پہنچ رہی ہے۔ تاہم انہوں نے کورونا کی نئی قسم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے نئے کیسز میں اضافہ ہوا ہے جو تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو معلومات مل رہی ہیں ان کے مطابق کھپت کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ دیہی مانگ کے ساتھ ساتھ شہری مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے اور لوگوں نے سفر اور سیاحت وغیرہ پر خرچ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اکتوبر نومبر کے دوران ریلوے فریٹ ٹریفک، پورٹ فریٹ ٹرانسپورٹ، جی ایس ٹی ریونیو کلیکشن، ٹول کلیکشن، پٹرولیم کے استعمال اور ہوائی مسافروں کی آمدورفت میں اضافہ ہوا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی اور ویٹ میں حالیہ تخفیف کی وجہ سے قوت خرید میں اضافہ، کھپت کی طلب میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اگست کے بعد سے حکومتی کھپت میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے مجموعی مانگ بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیپٹل گڈز کی پیداوار کورونا کے پہلے دور کی سطح پر برقرارہے ۔ اکتوبر میں ان مصنوعات کی درآمدات میں بھی دوہرے ہندسوں میں اضافہ ہوا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ کورونا کی دوسری لہر سے متاثر ہونے والی معیشت اب ایک بار پھر تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن معیشت ابھی اتنی مضبوط بھی نہیں ہوئی ہے کہ بیرونی جھٹکوں کو برداشت کر سکے اور طویل عرصے تک مستحکم رہے۔ اس کے پیش نظر پالیسی تعاون جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے رواں مالی برس کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ 9.5 فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تیسری سہ ماہی میں 6.6 فیصد اور چوتھی سہ ماہی میں 6.0 فیصد رہنے کی امید ہے۔ آئندہ مالی برس کی پہلی سہ ماہی میں یہ 17.2 فیصد اور دوسری سہ ماہی میں 7.8 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
مزید پڑھیں:
یو این آئی