ETV Bharat / business

کسان اور مالیاتی دباؤ: آمدنی میں اضافہ ہی کسانوں کی ترقی کا واحد ذریعہ - کسان اور مالیاتی دباؤ

امبیڈکر یونیورسٹی میں شعبہ کامرس کی پروفیسر کیتھی ریڈی کروناندھی نے قرض میں ڈوبے کسانوں اور زرعی شعبہ میں پیدا ہوئے بحران پر کہا ہے کہ کسانوں کے قرضہ کو بھلے ہی مرکزی اور ریاستی سطح پر معاف کردیا جائے لیکن حکومت کو ان کی آمدنی کے ذرائع میں مسلسل بہتری لانی ہوگی۔جب تک کھاد، جراثیم کش ادویات کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہے گا تب تک کسانوں کو منافع نہیں ملے گا۔

کسان اور مالیاتی دباؤ: آمدنی میں اضافہ ہی کسانوں کی ترقی کا واحد ذریعہ
کسان اور مالیاتی دباؤ: آمدنی میں اضافہ ہی کسانوں کی ترقی کا واحد ذریعہ
author img

By

Published : Mar 18, 2020, 1:42 PM IST

پورے ملک میں اس وقت زرعی شعبہ بھیانک مالی تناؤ میں مبتلا ہے ۔سبز انقلاب شروع ہونے کے دوران یہ ملک کا ایک کامیاب شعبہ تھا، لیکن اب یہ شدید مشکلات کے بھنور میں سے گزر رہا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ زرعی شعبہ ملک کی معیشت میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ملک کی 130 کروڑ کی کل آبادی میں سے 87 فیصد کی روزی روٹی اسی شعبہ پر منحصر کرتی ہے ۔

آزادی کے وقت زراعت کا شعبہ ملک کی مجموعی پیداوار کا 55 فیصد تھا جو اب سکڑ کر 13 فیصد رہ گیا ہے۔اس وقت ملک میں 85 فیصد کسانوں کے پاس چھوٹے چھوٹے کھیت ہی ہیں ۔ ملک میں مجموعی طور پر جو اناج پیدا ہو تا ہے اس کا 50 فیصد حصہ یہ چھوٹے کسان ہی فراہم کرتے ہیں ۔

زرعی شعبہ فوڈ سکیورٹی 'بر آمدات کے ذریعے غیر ملکی زر مبادلہ کی کمائی' صنعتوں کیلئے خام مال کی حصولی اور دیہی معیشت کے حوالے سے ایک کلیدی رول ادا کرتا ہے اور آج یہی شعبہ بے شمار مسائل سے دو چار ہے جس کی وجہ سے چھوٹے کسانوں کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔

لیکن اس آفت کے باوجود مرکز میں مودی حکومت 2022-23 تک کسانوں کی آمدنی دو گنا کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے ۔یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے اشوک دلوائی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل کی جائے گی جو ایک سات نکاتی حکمت علمی تیار کرے گی۔سنہ 2015-2016 میں ایک کسان کی اوسط سالانہ آمدنی 96 ہزار 703 روپے تھی اور کمیٹی نے کسانوں کے لیے دوستانہ پالیساں نافذ کرکے سنہ 2022-23 تک ان کی سالانہ آمدنی 1 لاکھ 92 ہزار 694 روپے تک اضافہ کرنے کی منصوبہ وضع کررہی ہے۔

دلوائی کی سربراہی والی کمیٹی نے تجویز پیش کی ہے کہ اگر حکومت کسانوں کی آمدنی کو دو گنا کرنے کی تجویز کو عملی جامہ پہنانا ہے تو اس شعبہ کی پیداوار میں مجموعی طور پر ہر سال 15 ط فیصد اضافہ ہونا چاہیے ۔اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ آئندہ دو سال اس ضمن میں وفاقی حکومت کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوں گے ۔گزشتہ تین برسوں میں اوسط سے کم بارشوں کی وجہ سے حکومت اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام ہو ئی ہے۔حکومت نے اپنی جانب سے حالیہ عام بجٹ میں اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے 16 نکاتی منصوبے کا اعلان کیا ہے ۔لیکن ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مناسب فنڈز مختص نہیں رکھے گئے تاکہ اس ہدف کو حاصل کیا جاسکے ۔

مختص رقومات میں تخفیف

ہر ایک کا خیال تھا کہ موجودہ پیچیدہ حالات میں ماضی کے مقابلے میں زراعت اور دیہی ترقی کے بجٹ میں خاطر خواہ فنڈز دستیاب رکھے جائیں گے لیکن سنہ 2020-21 کے بجٹ میں ایک دوسری ہی تصویر دیکھنے کو ملی ۔امید کی جا رہی تھی کہ حالیہ عام بجٹ میں براہ راست فائدہ منتقل ہونے والی اسکیموں 'جیسے پی ایم کسان یوجنا ' کم سے کم قیمت سپورٹ انکم اسکیم کا بجٹ بڑھا دیا جائیگا۔کمیٹی نے تجویز پیش کی تھی کہ اگر کسانوں کی آمدن کو سنہ 2022 تک دو گنا کرنا ہے تو بجٹ میں 6.4 لاکھ کروڑ روپے مختص کرنے ہوں گے۔لیکن حالیہ بجٹ میں جس طرح رقومات کو مختص کیا گیا وہ حیران کن ہے کیونکہ فنڈنگ کو بڑھانے کے بجائے اس میں تخفیف کی گئی ۔

مثال کے طور پر زراعت اور اس سے منسلک دوسرے شعبے جیسے آبپاشی کیلئے امسال 1.5 لاکھ کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ گزشتہ برس اس کیلئے 1.52 لاکھ کروڑ روپے مختص رکھے گئے تھے، جس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ اس شعبہ کیلئے مختص رقم میں محض 6 لاکھ کروڑ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے ۔یہ ایک واضح امر ہے کہ اس طرح کے کم اضافہ سے کسانوں کی آمدنی دوگنا ہونے کے کوئی امکان نہیں ہے ۔اگر دیہات کی ترقی کے لیے جو رقم مختص کیے گئے ہیں انہیں بھی اس میں شامل کر لیا جاتا ہے تو یہ مجموعی رقم کا 2.83 لاکھ کروڑ روپے ہوجاتی ہے، جو مجموعی بجٹ 30.4 لاکھ کروڑ روپے کا 9.83 فیصد ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ مرکزی حکومت نے اصل میں دیہی معیشت میں بہتری لانے کے بجٹ میں 0.5 فیصد کمی کی ہے ۔گزشتہ مالی سال کے دوران گرچہ پی ایم کسان یوجنا کیلیے 75 ہزار کروڑ روپے مختص رکھے گئے تھے لیکن اس میں سے صرف 42 ہزار 440 کروڑ روپے ہی 8.46 کروڑ خاندانوں پر صرف کئے گئے ۔امسال بھی کوئی اضافہ کئے بغیر 75 ہزار کرو ڑ روپے اس اسکیم کیلئے مختص رکھے گئے ہیں۔

ملک بھر میں کسانوں کی تعداد 14.5 کروڑ ہے اور ہر کسان کی تنخواہ فی چھ ہزار روپے ہوتی ہے، لیکن اس سال اس ہدف کو مکمل کرنے کے لیے 87 ہزار کروڑ روپے کی ضرورت ہوتی ہے۔ریاستی حکومتوں کی درخواست پر مرکز نے 'مارکیٹ انٹرونشن اسکیم 'عملا رہی ہے تاکہ کسانوں کو نقصان نہ اٹھانا پڑے ۔اس کے علاوہ وہ 'سپورٹ پرائسنگ اسکیم‘ کی بھی حمایت کررہی ہے ۔گزشتہ سال ان دونوں اسکیموں کیلئے تین ہزار کروڑ روپے مختص رکھے گئے تھے جبکہ امسال ایک ہزار کروڑ روپے کی تخفیف کرکے ان دونوں اسکیموں کیلئے محض دو ہزار کروڑ روپے مختص رکھے گئے ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ آندھرا پردیش میں ان اسکیموں کیلئے تین ہزار کروڑ روپے مختص رکھے گئے ۔سنہ 2018 میں حکومت نے دالوں کی پیداوار کرنے والے کسانوں کے لیے پی ایم آشا اسکیم کا تعارف کروایا تھا، لیکن ان کے فنڈز کو کم کرکے محض 500 کروڑ روپے تک کردیا گیا ہے، جو مرکزی حکومت کی غریب کسانوں کے تئیں روپے کو واضح کرتی ہے۔

سنہ 2019میں بزرگ، پسماندہ اور کم زمین کسان مالکان کیلئے پی ایم کسان ماس دھن یوجنا کے تحت 680 کروڑ روپے کی تخفیف کی گئی ہے ۔یہ حیران کن امر ہے کہ دس ہزار فارمر پرڈوسر کمپنیوں کے قیام اور ان کی ترقی کیلئے محض 500 کروڑ روپے مختص رکھے گئے ہیں ۔ان کمپنیوں کیلئے بھی محض 500 کورڑ روپے فراہم کئے گئے ہیں۔

اس بات کا تخمینہ لگایاجارہا ہے کہ ملک میں دودھ کی پیداوار سنہ 2022 دو گنی ہو گی ۔آندھرا پردیش اس ضمن میں سر فہرست ہے ۔ملک بھر میں 8 ملین گھرانے اس پیشہ سے جڑے ہیں ۔ان میں سے اکثریت غربت کی مار سہہ رہے ہیں، لیکن پھر بھی اس شعبہ کیلئے محض 60کروڑ روپے مختص رکھے گئے ہیں ۔

مویشیوں کی طبی نگہداشت اوردیکھ ریکھ کے اخراجات مہنگے ہو گئے ہیں اور اس کیلئے الاٹ کی گئی رقم کسی بھی طرح کافی نہیں ہے ۔اس قیمت کے پیش نظر یہ ممکن نہیں ہے کہ دودھ کی پیداوا ر کو دو گنا کیا جا سکے ۔اس میں کھادوں پر 11 فیصد اور ایمپلائمنٹ گارنٹی اسکیم پر 15 فیصد کی اضافی تخفیف کی گئی ۔

فوڈ کار پوریشن آف انڈیا(ایف سی آئی) کسانوں سے اناج حاصل کرنے میں ایک کلیدی رول اداکرتا ہے لیکن اس کیلئے مختص رقومات میں بھی کمی کر دی گئی ہے ۔گزشتہ سال اس کیلئے 1 لاکھ 84 ہزار 220 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے لیکن امسال اس میں کمی کر کے 1 لاکھ 8 ہزار روپے رکھا گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کیلئے مختص رقومات میں 76 ہزار 532 کروڑ روپے کی تخفیف کی گئی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسانوں کے پاس جو بچا کچا اناج تھا وہ انہوں نے پرائیویٹ تاجروں اور مل مالکان کو بیچ دیا کیونکہ ایف سی آئی ان سے زیادہ قیمتوں پر اناج خرید نہیں سکے گی ۔

بازار میں چیزوں کی قیمت ہمیشہ حکومت کی طرف سے مقرر اور طئے کی جاتی ہیں جو اسپورٹ قیمت کے مقابلے بہت کم ہوتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسان اپنی پیداوار کو کم قیمت میں فروخت کرکے بھاری خامیازہ وصول کرنا پڑتا ہے۔

روز گار ضمانتی اسکیم یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں اور کروڑوں دیہی علاقوں کے رہائشیوں کیلئے ایک معاشی طاقت فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، لیکن اس میں بھی کمی کرکے اسے 71 ہزار کروڑ روپے سے 61 ہزار 500 کروڑ روپے کردیا گیا ۔گزشتہ سال کارپوریٹ کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ کی شکل دے کر انہیں بڑی راحت پہنچائی گئی تھی۔ٹیکس میں چھوٹ کا حجم 1.45 لاکھ کروڑ روپے تھا، اس کے علاوہ بھی مزید 6.6 لاکھ کروڑ روپے کی رعایت دی گئی ہے لیکن اس کے برعکس مرکزی اور ریاستی سطح پر کسانوں کے قرضہ کو صرف 1.5 لاکھ کروڑ روپے معاف کئے گئے ۔

قیمت پر توجہ مرکوز

مرکزی اور ریاستی سطح پر کسانوں کے قرضہ جات معاف ہو تے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کی حالت زندگی میں بہتری آ رہی ہے اور نہ ان کے مسائل ختم ہو رہے ہیں ۔کسانوں کی زندگی کو دھیان میں رکھ کر حکومت کو زرعی شعبہ کی حالت زار پر دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔اپنے مسائل کو لے کر کسان سڑکوں پر آ رہے ہیں ۔کسانوں کی آمدنی میں اضافے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انکے مسائل حل ہو ئے ہیں ۔ان کے آمدنی کے ذرائع میں مسلسل بہتری لانی ہو گی ۔ جب تک کھاد، جراثم کش ادویات اور مزدوری میں اضافہ ہوتا رہے گا تب تک کسانوں کی آمدنی چاہے دو گنا کیوں نہ ہوجائے انہیں منافع نہیں ہوگا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ کسان کو ہر صورت میں بڑے نقصان سے دوچار ہو نا پڑ رہا ہے ۔چاہے فصل اچھی ہو یا توقع سے کم رہے۔ فصل اچھی ہونے کی صورت میں قیمتیں گرتی ہیں اور اگر فصل خراب ہوجائے تب یہ خطرہ مزید بڑھ جاتی ہے۔ایسے میں کسانوں کے پاس اس کے علاوہ دوسرا کوئی متبادل نہیں ہو تا ہے کہ وہ اپنی پیداوار کم قیمت پر فروخت کر ے۔اس زمرے میں دودھ، پیاز، ٹماٹر، مچھلی اور سبزیاں آتی ہیں ۔اس مسئلے کا حل کولڈ اسٹور تعمیر کرنا ہے ۔اس کے علاوہ ان چیزوں کو جہاز کے ذریعے ایک سے دوسری جگہ پہنچانا بھی مالک کیلئے فائدے مند ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے ایک تو وقت کی بچت ہو گی اور ساتھ میں یہ چیزیں خراب نہیں ہوں گی ۔

اس بات کا دھیان رکھا جانا چاہئے کہ کسان مختلف مالیاتی جیسے بچولیوں اور پرائیوٹ کمپنیوں سے قرضہ مہیا کرنے والوں کے پاس نہ پہنچ پائیں، جو قرضہ انتہائی زیادہ سود کی شرح پر دیتے ہیں۔اس کو روکا جا سکتا ہے اگر سرکار کی جانب سے کم شرح سود پر قرضہ جات فراہم کئے جائیں۔ایک طرف حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے کی سمت میں کام کررہی ہے، لیکن دوسری جانب اس نے 'فصل بیمااسکیم' میں اپنے حصے کے پریمیم کی رقم کم کردی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب اس سکیم سے استفادہ کیلئے کسانوں کو زیادہ پریمیم ادا کرنا ہو گا۔مرکز کو سوچنا چاہئے کہ ایسے اقدامات سے کسان قرضوں کے گڑھے میں دھنس جائیں گے اور مالی طور پر انہیں خود مختار بنانے کا خواب شر مندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا ۔

صحیح فصل کا انتخاب اہم

ملک کا آب و ہوا اور جغرافیائی محل و قوع کئی طرح کی فصل اگانے کیلئے موافق ہے ۔صحیح فصل اگانا کسان کیلئے فائدے مند ثابت ہو سکتاہے ۔اس ضمن میں سائنسدانوں کے مشورے کسان تک پہنچانے جانے چاہئیں۔

فنڈنگ میں کٹوتی کے باوجو مرکزی حکومت نے کسانوں کی آمدنی کو بڑھانے کیلئے متعدد اقدامات کئے ہیں ۔سنہ 2014 سے 2019 تک 40.45 لاکھ ہیکٹئر اراضی کو ’مائیکرو اریگیشن‘ کے تحت لایا گیا ۔ملک بھر سے 585 منڈیوں کو نیشنل ایگریکلچر مارکیٹ کے تحت لایا گیا ۔مقامی طور پر بازار ( گرامین ہاٹ)وجود میں لائے گئے، کسانوں کی انجمنوں کو سپورٹ کیا گیا ، کم سے کم سپورٹ پرائس میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا، دالوں اور تیل کے بیج کو حاصل کرنے کا دائرہ بڑھا دیا گیا، 22.07 کروڑ سوئیل کوالٹی ریکارڈ کارڑ تقسیم کئے گئے جس سے کسانوں کی لاگت کے اخراجات میں 8 سے 10فیصد بچت ہوئی ۔یہ کچھ ایسے اچھے اقدامات ہیں جو مرکزی حکومت نے کسانوں کی بہتری اور ان کے فائدے کیلئے اٹھائے ہیں ۔

علاوہ ازیں حکومت نے کچھ اسکیمیں بھی متعارف کی ہیں جن میں :

٭’فصل بیما‘ جس میں کسانوں کو کم پریمیم ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ پریمیم کی باقی ماندہ رقم حکومت ادا کرتی ہے ۔

٭زرعی لون کی حد اور تعداد میں اضافہ ۔

٭کسان کریڈٹ کارڈ کا دائرہ بڑھایا۔

٭ حال ہی میں پی 'ایم کسان یوجنا 'جس میں ڈائریکٹ بنیفٹ ٹرانسفر (ڈی بی ٹی)اسکیم عملائی جا رہی ہے جس کے تحت پیسہ سیدھے کسانوں کے بینک کھاتوں میں منتقل کیاجاتا ہے ۔ان اسکیموں کا مقصد کسانوں کو مالی طور پر کود کفیل اور مالیاتی طور پر خود مختار بنانا ہے ۔

پورے ملک میں اس وقت زرعی شعبہ بھیانک مالی تناؤ میں مبتلا ہے ۔سبز انقلاب شروع ہونے کے دوران یہ ملک کا ایک کامیاب شعبہ تھا، لیکن اب یہ شدید مشکلات کے بھنور میں سے گزر رہا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ زرعی شعبہ ملک کی معیشت میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ملک کی 130 کروڑ کی کل آبادی میں سے 87 فیصد کی روزی روٹی اسی شعبہ پر منحصر کرتی ہے ۔

آزادی کے وقت زراعت کا شعبہ ملک کی مجموعی پیداوار کا 55 فیصد تھا جو اب سکڑ کر 13 فیصد رہ گیا ہے۔اس وقت ملک میں 85 فیصد کسانوں کے پاس چھوٹے چھوٹے کھیت ہی ہیں ۔ ملک میں مجموعی طور پر جو اناج پیدا ہو تا ہے اس کا 50 فیصد حصہ یہ چھوٹے کسان ہی فراہم کرتے ہیں ۔

زرعی شعبہ فوڈ سکیورٹی 'بر آمدات کے ذریعے غیر ملکی زر مبادلہ کی کمائی' صنعتوں کیلئے خام مال کی حصولی اور دیہی معیشت کے حوالے سے ایک کلیدی رول ادا کرتا ہے اور آج یہی شعبہ بے شمار مسائل سے دو چار ہے جس کی وجہ سے چھوٹے کسانوں کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔

لیکن اس آفت کے باوجود مرکز میں مودی حکومت 2022-23 تک کسانوں کی آمدنی دو گنا کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے ۔یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے اشوک دلوائی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل کی جائے گی جو ایک سات نکاتی حکمت علمی تیار کرے گی۔سنہ 2015-2016 میں ایک کسان کی اوسط سالانہ آمدنی 96 ہزار 703 روپے تھی اور کمیٹی نے کسانوں کے لیے دوستانہ پالیساں نافذ کرکے سنہ 2022-23 تک ان کی سالانہ آمدنی 1 لاکھ 92 ہزار 694 روپے تک اضافہ کرنے کی منصوبہ وضع کررہی ہے۔

دلوائی کی سربراہی والی کمیٹی نے تجویز پیش کی ہے کہ اگر حکومت کسانوں کی آمدنی کو دو گنا کرنے کی تجویز کو عملی جامہ پہنانا ہے تو اس شعبہ کی پیداوار میں مجموعی طور پر ہر سال 15 ط فیصد اضافہ ہونا چاہیے ۔اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ آئندہ دو سال اس ضمن میں وفاقی حکومت کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوں گے ۔گزشتہ تین برسوں میں اوسط سے کم بارشوں کی وجہ سے حکومت اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام ہو ئی ہے۔حکومت نے اپنی جانب سے حالیہ عام بجٹ میں اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے 16 نکاتی منصوبے کا اعلان کیا ہے ۔لیکن ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مناسب فنڈز مختص نہیں رکھے گئے تاکہ اس ہدف کو حاصل کیا جاسکے ۔

مختص رقومات میں تخفیف

ہر ایک کا خیال تھا کہ موجودہ پیچیدہ حالات میں ماضی کے مقابلے میں زراعت اور دیہی ترقی کے بجٹ میں خاطر خواہ فنڈز دستیاب رکھے جائیں گے لیکن سنہ 2020-21 کے بجٹ میں ایک دوسری ہی تصویر دیکھنے کو ملی ۔امید کی جا رہی تھی کہ حالیہ عام بجٹ میں براہ راست فائدہ منتقل ہونے والی اسکیموں 'جیسے پی ایم کسان یوجنا ' کم سے کم قیمت سپورٹ انکم اسکیم کا بجٹ بڑھا دیا جائیگا۔کمیٹی نے تجویز پیش کی تھی کہ اگر کسانوں کی آمدن کو سنہ 2022 تک دو گنا کرنا ہے تو بجٹ میں 6.4 لاکھ کروڑ روپے مختص کرنے ہوں گے۔لیکن حالیہ بجٹ میں جس طرح رقومات کو مختص کیا گیا وہ حیران کن ہے کیونکہ فنڈنگ کو بڑھانے کے بجائے اس میں تخفیف کی گئی ۔

مثال کے طور پر زراعت اور اس سے منسلک دوسرے شعبے جیسے آبپاشی کیلئے امسال 1.5 لاکھ کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ گزشتہ برس اس کیلئے 1.52 لاکھ کروڑ روپے مختص رکھے گئے تھے، جس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ اس شعبہ کیلئے مختص رقم میں محض 6 لاکھ کروڑ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے ۔یہ ایک واضح امر ہے کہ اس طرح کے کم اضافہ سے کسانوں کی آمدنی دوگنا ہونے کے کوئی امکان نہیں ہے ۔اگر دیہات کی ترقی کے لیے جو رقم مختص کیے گئے ہیں انہیں بھی اس میں شامل کر لیا جاتا ہے تو یہ مجموعی رقم کا 2.83 لاکھ کروڑ روپے ہوجاتی ہے، جو مجموعی بجٹ 30.4 لاکھ کروڑ روپے کا 9.83 فیصد ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ مرکزی حکومت نے اصل میں دیہی معیشت میں بہتری لانے کے بجٹ میں 0.5 فیصد کمی کی ہے ۔گزشتہ مالی سال کے دوران گرچہ پی ایم کسان یوجنا کیلیے 75 ہزار کروڑ روپے مختص رکھے گئے تھے لیکن اس میں سے صرف 42 ہزار 440 کروڑ روپے ہی 8.46 کروڑ خاندانوں پر صرف کئے گئے ۔امسال بھی کوئی اضافہ کئے بغیر 75 ہزار کرو ڑ روپے اس اسکیم کیلئے مختص رکھے گئے ہیں۔

ملک بھر میں کسانوں کی تعداد 14.5 کروڑ ہے اور ہر کسان کی تنخواہ فی چھ ہزار روپے ہوتی ہے، لیکن اس سال اس ہدف کو مکمل کرنے کے لیے 87 ہزار کروڑ روپے کی ضرورت ہوتی ہے۔ریاستی حکومتوں کی درخواست پر مرکز نے 'مارکیٹ انٹرونشن اسکیم 'عملا رہی ہے تاکہ کسانوں کو نقصان نہ اٹھانا پڑے ۔اس کے علاوہ وہ 'سپورٹ پرائسنگ اسکیم‘ کی بھی حمایت کررہی ہے ۔گزشتہ سال ان دونوں اسکیموں کیلئے تین ہزار کروڑ روپے مختص رکھے گئے تھے جبکہ امسال ایک ہزار کروڑ روپے کی تخفیف کرکے ان دونوں اسکیموں کیلئے محض دو ہزار کروڑ روپے مختص رکھے گئے ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ آندھرا پردیش میں ان اسکیموں کیلئے تین ہزار کروڑ روپے مختص رکھے گئے ۔سنہ 2018 میں حکومت نے دالوں کی پیداوار کرنے والے کسانوں کے لیے پی ایم آشا اسکیم کا تعارف کروایا تھا، لیکن ان کے فنڈز کو کم کرکے محض 500 کروڑ روپے تک کردیا گیا ہے، جو مرکزی حکومت کی غریب کسانوں کے تئیں روپے کو واضح کرتی ہے۔

سنہ 2019میں بزرگ، پسماندہ اور کم زمین کسان مالکان کیلئے پی ایم کسان ماس دھن یوجنا کے تحت 680 کروڑ روپے کی تخفیف کی گئی ہے ۔یہ حیران کن امر ہے کہ دس ہزار فارمر پرڈوسر کمپنیوں کے قیام اور ان کی ترقی کیلئے محض 500 کروڑ روپے مختص رکھے گئے ہیں ۔ان کمپنیوں کیلئے بھی محض 500 کورڑ روپے فراہم کئے گئے ہیں۔

اس بات کا تخمینہ لگایاجارہا ہے کہ ملک میں دودھ کی پیداوار سنہ 2022 دو گنی ہو گی ۔آندھرا پردیش اس ضمن میں سر فہرست ہے ۔ملک بھر میں 8 ملین گھرانے اس پیشہ سے جڑے ہیں ۔ان میں سے اکثریت غربت کی مار سہہ رہے ہیں، لیکن پھر بھی اس شعبہ کیلئے محض 60کروڑ روپے مختص رکھے گئے ہیں ۔

مویشیوں کی طبی نگہداشت اوردیکھ ریکھ کے اخراجات مہنگے ہو گئے ہیں اور اس کیلئے الاٹ کی گئی رقم کسی بھی طرح کافی نہیں ہے ۔اس قیمت کے پیش نظر یہ ممکن نہیں ہے کہ دودھ کی پیداوا ر کو دو گنا کیا جا سکے ۔اس میں کھادوں پر 11 فیصد اور ایمپلائمنٹ گارنٹی اسکیم پر 15 فیصد کی اضافی تخفیف کی گئی ۔

فوڈ کار پوریشن آف انڈیا(ایف سی آئی) کسانوں سے اناج حاصل کرنے میں ایک کلیدی رول اداکرتا ہے لیکن اس کیلئے مختص رقومات میں بھی کمی کر دی گئی ہے ۔گزشتہ سال اس کیلئے 1 لاکھ 84 ہزار 220 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے لیکن امسال اس میں کمی کر کے 1 لاکھ 8 ہزار روپے رکھا گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کیلئے مختص رقومات میں 76 ہزار 532 کروڑ روپے کی تخفیف کی گئی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسانوں کے پاس جو بچا کچا اناج تھا وہ انہوں نے پرائیویٹ تاجروں اور مل مالکان کو بیچ دیا کیونکہ ایف سی آئی ان سے زیادہ قیمتوں پر اناج خرید نہیں سکے گی ۔

بازار میں چیزوں کی قیمت ہمیشہ حکومت کی طرف سے مقرر اور طئے کی جاتی ہیں جو اسپورٹ قیمت کے مقابلے بہت کم ہوتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسان اپنی پیداوار کو کم قیمت میں فروخت کرکے بھاری خامیازہ وصول کرنا پڑتا ہے۔

روز گار ضمانتی اسکیم یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں اور کروڑوں دیہی علاقوں کے رہائشیوں کیلئے ایک معاشی طاقت فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، لیکن اس میں بھی کمی کرکے اسے 71 ہزار کروڑ روپے سے 61 ہزار 500 کروڑ روپے کردیا گیا ۔گزشتہ سال کارپوریٹ کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ کی شکل دے کر انہیں بڑی راحت پہنچائی گئی تھی۔ٹیکس میں چھوٹ کا حجم 1.45 لاکھ کروڑ روپے تھا، اس کے علاوہ بھی مزید 6.6 لاکھ کروڑ روپے کی رعایت دی گئی ہے لیکن اس کے برعکس مرکزی اور ریاستی سطح پر کسانوں کے قرضہ کو صرف 1.5 لاکھ کروڑ روپے معاف کئے گئے ۔

قیمت پر توجہ مرکوز

مرکزی اور ریاستی سطح پر کسانوں کے قرضہ جات معاف ہو تے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کی حالت زندگی میں بہتری آ رہی ہے اور نہ ان کے مسائل ختم ہو رہے ہیں ۔کسانوں کی زندگی کو دھیان میں رکھ کر حکومت کو زرعی شعبہ کی حالت زار پر دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔اپنے مسائل کو لے کر کسان سڑکوں پر آ رہے ہیں ۔کسانوں کی آمدنی میں اضافے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انکے مسائل حل ہو ئے ہیں ۔ان کے آمدنی کے ذرائع میں مسلسل بہتری لانی ہو گی ۔ جب تک کھاد، جراثم کش ادویات اور مزدوری میں اضافہ ہوتا رہے گا تب تک کسانوں کی آمدنی چاہے دو گنا کیوں نہ ہوجائے انہیں منافع نہیں ہوگا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ کسان کو ہر صورت میں بڑے نقصان سے دوچار ہو نا پڑ رہا ہے ۔چاہے فصل اچھی ہو یا توقع سے کم رہے۔ فصل اچھی ہونے کی صورت میں قیمتیں گرتی ہیں اور اگر فصل خراب ہوجائے تب یہ خطرہ مزید بڑھ جاتی ہے۔ایسے میں کسانوں کے پاس اس کے علاوہ دوسرا کوئی متبادل نہیں ہو تا ہے کہ وہ اپنی پیداوار کم قیمت پر فروخت کر ے۔اس زمرے میں دودھ، پیاز، ٹماٹر، مچھلی اور سبزیاں آتی ہیں ۔اس مسئلے کا حل کولڈ اسٹور تعمیر کرنا ہے ۔اس کے علاوہ ان چیزوں کو جہاز کے ذریعے ایک سے دوسری جگہ پہنچانا بھی مالک کیلئے فائدے مند ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے ایک تو وقت کی بچت ہو گی اور ساتھ میں یہ چیزیں خراب نہیں ہوں گی ۔

اس بات کا دھیان رکھا جانا چاہئے کہ کسان مختلف مالیاتی جیسے بچولیوں اور پرائیوٹ کمپنیوں سے قرضہ مہیا کرنے والوں کے پاس نہ پہنچ پائیں، جو قرضہ انتہائی زیادہ سود کی شرح پر دیتے ہیں۔اس کو روکا جا سکتا ہے اگر سرکار کی جانب سے کم شرح سود پر قرضہ جات فراہم کئے جائیں۔ایک طرف حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے کی سمت میں کام کررہی ہے، لیکن دوسری جانب اس نے 'فصل بیمااسکیم' میں اپنے حصے کے پریمیم کی رقم کم کردی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب اس سکیم سے استفادہ کیلئے کسانوں کو زیادہ پریمیم ادا کرنا ہو گا۔مرکز کو سوچنا چاہئے کہ ایسے اقدامات سے کسان قرضوں کے گڑھے میں دھنس جائیں گے اور مالی طور پر انہیں خود مختار بنانے کا خواب شر مندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا ۔

صحیح فصل کا انتخاب اہم

ملک کا آب و ہوا اور جغرافیائی محل و قوع کئی طرح کی فصل اگانے کیلئے موافق ہے ۔صحیح فصل اگانا کسان کیلئے فائدے مند ثابت ہو سکتاہے ۔اس ضمن میں سائنسدانوں کے مشورے کسان تک پہنچانے جانے چاہئیں۔

فنڈنگ میں کٹوتی کے باوجو مرکزی حکومت نے کسانوں کی آمدنی کو بڑھانے کیلئے متعدد اقدامات کئے ہیں ۔سنہ 2014 سے 2019 تک 40.45 لاکھ ہیکٹئر اراضی کو ’مائیکرو اریگیشن‘ کے تحت لایا گیا ۔ملک بھر سے 585 منڈیوں کو نیشنل ایگریکلچر مارکیٹ کے تحت لایا گیا ۔مقامی طور پر بازار ( گرامین ہاٹ)وجود میں لائے گئے، کسانوں کی انجمنوں کو سپورٹ کیا گیا ، کم سے کم سپورٹ پرائس میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا، دالوں اور تیل کے بیج کو حاصل کرنے کا دائرہ بڑھا دیا گیا، 22.07 کروڑ سوئیل کوالٹی ریکارڈ کارڑ تقسیم کئے گئے جس سے کسانوں کی لاگت کے اخراجات میں 8 سے 10فیصد بچت ہوئی ۔یہ کچھ ایسے اچھے اقدامات ہیں جو مرکزی حکومت نے کسانوں کی بہتری اور ان کے فائدے کیلئے اٹھائے ہیں ۔

علاوہ ازیں حکومت نے کچھ اسکیمیں بھی متعارف کی ہیں جن میں :

٭’فصل بیما‘ جس میں کسانوں کو کم پریمیم ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ پریمیم کی باقی ماندہ رقم حکومت ادا کرتی ہے ۔

٭زرعی لون کی حد اور تعداد میں اضافہ ۔

٭کسان کریڈٹ کارڈ کا دائرہ بڑھایا۔

٭ حال ہی میں پی 'ایم کسان یوجنا 'جس میں ڈائریکٹ بنیفٹ ٹرانسفر (ڈی بی ٹی)اسکیم عملائی جا رہی ہے جس کے تحت پیسہ سیدھے کسانوں کے بینک کھاتوں میں منتقل کیاجاتا ہے ۔ان اسکیموں کا مقصد کسانوں کو مالی طور پر کود کفیل اور مالیاتی طور پر خود مختار بنانا ہے ۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.