ETV Bharat / briefs

بھارتی شہریت کے لیے جدو جہد کرنے والی 'پاکستانی' خواتین - سرکاری دفاتر

ریاست اترپردیش میں شہر بریلی کی دو 'پاکستانی' خواتین کو تقریباً تین دہائی کی جدو جہد کے بعد پیر کے روز بھارتی شہریت مل گئی۔

بھارتی شہریت کے لیے تین دہائیوں تک جدو جہد کرنے والی 'پاکستانی' خواتین، متعلقہ تصویر
author img

By

Published : Jun 26, 2019, 1:18 PM IST

رانا مختار کی کہانی جتنی دلچسپ ہے اتنی ہی سبق آموز بھی ہے۔ سنہ 1947 میں رانا مختار کے آبا و اجداد بریلی کے پڑوسی ضلع بدایوں سےنقل مکانی کر کے کراچی چلے گئے تھے۔ رانا مختار کے والد محمد مختار کراچی کے بڑے تاجروں میں شمار کئے جاتے تھے۔

بھارتی شہریت کے لیے تین دہائیوں تک جدو جہد کرنے والی 'پاکستانی' خواتین، متعلقہ ویڈیو
محمد مختار کراچی تو چلے گئے لیکن بریلی کی یادیں نہیں گئیں، انہوں نے سنہ 1987 میں اپنی بیٹی رانا مختار کو بریلی شہر کے کانکر ٹولہ کے سید قمر علی سے بیاہ دیا۔رانامختار کراچی سے بریلی تو آگئیں لیکن انہیں بھارت کی شہریت نہیں ملی تھی۔

رانا مختار کے شوہر نے انہیں بھارتی شہریت دلانے کے لیے دن رات دوڑ دھوپ کی۔ لیکن افسوس جب رانا مختار کو ضلع کلکٹریٹ میں بھارتی شہری ہونے کی سند دی جا رہی تھی، تو اُن کے شوہر سید قمر علی اِس یادگار لمحے کے وقت موجود نہیں تھے، دو سال قبل اُنکا انتقال ہو چکا تھا۔

رانا مختار کے پاس دو بچے ہیں بیٹی دہلی میں گوگل کے دفتر میں ملازمت کر رہی ہے تو بیٹا سعودی عرب میں اکاؤنٹنٹ ہے۔

کم و بیش یہی صورت حال شہر کے چھیپی ٹولہ کی رہنے والی شہلا کا بھی ہے۔ اُنکا نکاح سنہ 1990 میں پھل کاروباری رئیس احمد سے ہوا تھا۔ رئیس احمد نکاح کرنے کے لئے کراچی گئے تھے۔ ایک مہینے پاکستان میں رہنے کے بعد وہ اپنی اہلیہ شہلا کو لیکر بریلی آ گئے۔شہلا کے چار بچے ہیں ۔

اہم بات یہ ہے کہ دونوں خواتین تین دہائی کے طویل عرصے میں صرف دو مرتبہ پاکستان گئی ہیں۔ اس درمیان انہوں نے اپنے والد، والدہ اور تمام رشتہ داروں کو کھو دیا۔ جب کبھی خوشی یا غم کا موقع آیا، گھر کے کسی کونے میں چُھپ کر آنسو بہا لیئے۔ سرحدوں کے درمیان دیوار نے اُس پار جانے کا موقع نہیں دیا، صرف موبائل کے دوسری طرف کی آواز نے سرحد پار اپنوں کے ہونے کا احساس کرایا۔

قوانین کے مطابق بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لیے اپنے آبائی مُلک کی شہریت کا شناختی کارڈ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ لہذا بھارتی ہونے سے قبل اُنہیں خود کو پاکستانی ثابت کرنے کے لیئے مقامی سرٹیفکیٹ بنوانے ایک مرتبہ پاکستان جانا پڑا۔
شہلا سنہ 2006 میں اور رانا مختار سنہ 2007 میں پاکستان گئی تھیں۔ تین دہائی میں بس یہی ایک موقع تھا جب دونوں کو علیحدہ علیحدہ پاکستان جانے کا موقع ملا، اسی درمیان وہ اپنوں سے آخری مرتبہ ملی تھیں۔
بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لیے دونوں خواتین نے تین دہائی تک تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے سینکڑوں مرتبہ سرکاری دفاتر کے چکّر لگائے اور سرکاری افسران کی منتیں اور خوشامد کی۔ تین دہائی کی بھاگ دوڑ کے بعد بریلی ضلع انتظامیہ نے 24 جون کو دونوں خواتین کو ضلع کلکٹریٹ مدعو کرکے بھارتی شہری ہونے کی سند سپرد کی۔

رانا مختار اور شہلا کو اپنا پین کارڈ، راشن کارڈ اور آدھار کارڈ بھی بنوا سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اُنہیں بینک میں اپنا اکاؤنٹ کھلوانے کی اجازت بھی مل گئی ہے۔ بھارتی شہریت حاصل ہونے کے بعد اب انہیں اپنا نمائندہ منتخب کرنے یعنی ووٹ ڈالنے کا اختیار حاصل ہو جائیگا۔

رانا مختار کی کہانی جتنی دلچسپ ہے اتنی ہی سبق آموز بھی ہے۔ سنہ 1947 میں رانا مختار کے آبا و اجداد بریلی کے پڑوسی ضلع بدایوں سےنقل مکانی کر کے کراچی چلے گئے تھے۔ رانا مختار کے والد محمد مختار کراچی کے بڑے تاجروں میں شمار کئے جاتے تھے۔

بھارتی شہریت کے لیے تین دہائیوں تک جدو جہد کرنے والی 'پاکستانی' خواتین، متعلقہ ویڈیو
محمد مختار کراچی تو چلے گئے لیکن بریلی کی یادیں نہیں گئیں، انہوں نے سنہ 1987 میں اپنی بیٹی رانا مختار کو بریلی شہر کے کانکر ٹولہ کے سید قمر علی سے بیاہ دیا۔رانامختار کراچی سے بریلی تو آگئیں لیکن انہیں بھارت کی شہریت نہیں ملی تھی۔

رانا مختار کے شوہر نے انہیں بھارتی شہریت دلانے کے لیے دن رات دوڑ دھوپ کی۔ لیکن افسوس جب رانا مختار کو ضلع کلکٹریٹ میں بھارتی شہری ہونے کی سند دی جا رہی تھی، تو اُن کے شوہر سید قمر علی اِس یادگار لمحے کے وقت موجود نہیں تھے، دو سال قبل اُنکا انتقال ہو چکا تھا۔

رانا مختار کے پاس دو بچے ہیں بیٹی دہلی میں گوگل کے دفتر میں ملازمت کر رہی ہے تو بیٹا سعودی عرب میں اکاؤنٹنٹ ہے۔

کم و بیش یہی صورت حال شہر کے چھیپی ٹولہ کی رہنے والی شہلا کا بھی ہے۔ اُنکا نکاح سنہ 1990 میں پھل کاروباری رئیس احمد سے ہوا تھا۔ رئیس احمد نکاح کرنے کے لئے کراچی گئے تھے۔ ایک مہینے پاکستان میں رہنے کے بعد وہ اپنی اہلیہ شہلا کو لیکر بریلی آ گئے۔شہلا کے چار بچے ہیں ۔

اہم بات یہ ہے کہ دونوں خواتین تین دہائی کے طویل عرصے میں صرف دو مرتبہ پاکستان گئی ہیں۔ اس درمیان انہوں نے اپنے والد، والدہ اور تمام رشتہ داروں کو کھو دیا۔ جب کبھی خوشی یا غم کا موقع آیا، گھر کے کسی کونے میں چُھپ کر آنسو بہا لیئے۔ سرحدوں کے درمیان دیوار نے اُس پار جانے کا موقع نہیں دیا، صرف موبائل کے دوسری طرف کی آواز نے سرحد پار اپنوں کے ہونے کا احساس کرایا۔

قوانین کے مطابق بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لیے اپنے آبائی مُلک کی شہریت کا شناختی کارڈ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ لہذا بھارتی ہونے سے قبل اُنہیں خود کو پاکستانی ثابت کرنے کے لیئے مقامی سرٹیفکیٹ بنوانے ایک مرتبہ پاکستان جانا پڑا۔
شہلا سنہ 2006 میں اور رانا مختار سنہ 2007 میں پاکستان گئی تھیں۔ تین دہائی میں بس یہی ایک موقع تھا جب دونوں کو علیحدہ علیحدہ پاکستان جانے کا موقع ملا، اسی درمیان وہ اپنوں سے آخری مرتبہ ملی تھیں۔
بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لیے دونوں خواتین نے تین دہائی تک تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے سینکڑوں مرتبہ سرکاری دفاتر کے چکّر لگائے اور سرکاری افسران کی منتیں اور خوشامد کی۔ تین دہائی کی بھاگ دوڑ کے بعد بریلی ضلع انتظامیہ نے 24 جون کو دونوں خواتین کو ضلع کلکٹریٹ مدعو کرکے بھارتی شہری ہونے کی سند سپرد کی۔

رانا مختار اور شہلا کو اپنا پین کارڈ، راشن کارڈ اور آدھار کارڈ بھی بنوا سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اُنہیں بینک میں اپنا اکاؤنٹ کھلوانے کی اجازت بھی مل گئی ہے۔ بھارتی شہریت حاصل ہونے کے بعد اب انہیں اپنا نمائندہ منتخب کرنے یعنی ووٹ ڈالنے کا اختیار حاصل ہو جائیگا۔

Intro:بریلی میں تین دہائ کے طویل عرصے کے بعد آخرکار وہ حسین لمحہ بھی آیا ہے کہ جب دو پاکستانی خواتین کو بھارتی شہریت کی سند مل گئ. اس لمحے کے لیئے دونوں خواتین نے تین دہائ تک تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے سیکڑوں مرتبہ سرکاری دفاتر کے چکّر لگائے اور تمام سرکاری ملازمین کی منت اور خوشامد کی. بریلی ضلع انتظامیہ نے دونوں خواتین کو ضلع کلیکٹریٹ مدعو کرکے بھارتی شہری ہونے کی سند سپرد کی.


Body:سنہ 1947 میں رانا مختار کے آبا و اجداد بریلی کے پڑوسی ضلع بدایوں سے کراچی چلے گئے تھے. رانا مختار کے والد محمد مختار وہاں شہر کے بڑے کاروباریوں میں شمار کیئے جاتے تھے. سنہ 1987 میں رانا مختار کی شادی بریلی شہر کے کانکر ٹولہ علاقے کے رہنے والے سید قمر علی سے ہو گئ. اب رانا مختار کے دو بچوں میں بیٹی دہلی میں گوگل کے دفتر میں ملازم ہے تو بیٹا سعودی عرب میں اکاؤنٹنٹ ہے. لیکن بھرتی شہریت حاصل کرانے کی کاوشوں میں اُنکے شوہر نے سب سے زیادہ دن رات ایک کرکے محنت کی. لیکن افسوس جب رانا مختار کو ضلع کلیکٹریٹ میں بھارتی شہری ہونے کی سند دی جا رہی تھی، تو اُنکے شوہر سید قمر علی اِس یادگار لمحے کے چشمدید گواہ نہیں ہے بن پائے، دو سال قبل اُنکا انتقال ہو چکا ہے.

کم و بیش یہی صورت حال شہر کے چھیپی ٹولہ کی رہنے والی شہلا کا بھی ہے. اُنکا نکاح سنہ 1990 میں پھل کاروباری رئیس احمد سے ہوا تھا. رئیس احمد نکاح کرنے کے لیئے کراچ گئے تھے. ایک مہینے پاکستان میں رہنے کے بعد وہ اپنی اہلیہ شہلا کو لیکر بریلی آ گئے. شہلا. کے چار بچے ہیں اور چاروں بچے بالغ ہیں.

اہم بات یہ ہے کہ دونوں خواتین تین دہائ کے طویل عرصے میں صرف دو مرتبہ پاکستان گئ ہیں. اس درمیان انہوں نے اپنے والد، والدہ اور تمام رشتہ داروں کو کھو دیا. جب کبھی خوشی یا غم کا موقع آیا، گھر کے کسی کونے میں چُھپکر آنسو بہا لیئے. سرحدوں کے درمیان دیوار نے اُس پار جانے کا موقع نہیں دیا، صرف موبائل کے دوسری طرف کی آواز نے سرحد پار اپنوں کے ہونے کا احساس کرایا.

قوانین کے مطابق بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لیئے پہلے اپنے آبائی مُلک کی شہریت کا شناختی کارڈ ہونا ضروری ہوتا ہے. لہزا بھارتی ہونے سے قبل اُنہیں خود کو پاکستانی ثابت کرنے کے لیئے مقامی سرٹیفکیٹ بنوانے ایک مرتبہ پاکستان جانا پڑا. شہلا سنہ 2006 میں اور رانا مختار سنہ 2007 میں پاکستان گئ تھیں. تین دہائ میں بس یہی واحد موقع تھا، کہ جب دونوں کو علیحدہ علیحدہ پاکستان جانے کا موقع ملا. اسی درمیان وہ اپنوں سے آخری مرتبہ ملی ہیں.

رانا مختار اور شہلا کو اپنا پین کارڈ، راشن کارڈ اور آدھار کارڈ بھی بنوا سکتی ہیں. اسکے ساتھ ہی اُنہیں بی. ک میں اپنا اکاؤنٹ کھلوانے کی اجازت بھی مل گئ ہے. بھارتی شہریت حاصل ہونے کے بعد وہ کو اپنا نمائندہ منتخب کرنے یعنی ووٹ ڈالنے کا اختیار حاصل ہو جائیگا.


Conclusion:مستفیض علی خان
ای ٹی وی بھارت
بریلی

+919897531980
+919319447700
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.