کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا Constitution Club of India میں منعقدہ تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید Former Union Minister Salman Khurshid نے کہا کہ 'میری پیدائش علیگڑھ مسلم یونیورسٹی Aligarh Muslim University کے وی سی ہاؤس میں ہوئی تھی، آج کل جنم بھومی سرخیوں میں ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ میں اپنی یونیورسٹی بناؤں بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ اس عمارت کو مزید خوبصورت اور بہتر سے بہتر بنایا جائے، یقینا آگے ہمیں موقع ملے گا اور اس کو مزید بہتر طریقے سے تعمیر کریں گے اس سلسلے میں کتاب کا شائع ہونا ایک اچھا قدم ہے۔
اس موقع پر اے ایم یو کے سابق وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ Former Vice Chancellor of AMU Lt. Gen. Zameeruddin Shah نے بتایا کہ ہمیں علیگڑھ کو آکسفورڈ یا کیمبرج یونیورسٹی بنانا ہے البتہ جب اے ایم یو تعمیر ہوا تھا تب ملک میں 20 یونیورسٹیاں تھیں مگر موجودہ وقت میں 700 سے زائد یونیورسٹیاں ہیں۔
سابق رکن پارلیمان محمد ادیب Former MP Muhammad Adib نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بڑی ہمت اور جرات کے ساتھ آج کے حالات کا ذکر کتاب میں کیا ہے، علیگڑھ یقینی طور پر ویسا نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔
مولانا ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین نے علیگڑھ یونیورسٹی کو بچایا ہے اور بعد میں ہاشم قدوائی اور اخلاق الرحمن قدوائی نے بھی سرسید کے خوابوں کو پورا کرنے میں اہم رول ادا کیا۔
مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی (جودھپور) کے چانسلر پروفیسر اخترالواسع Chancellor Prof. Akhtar Wase Maulana Azad National University (Jodhpur) نے کہا کہ سرسید کو انتقال ہوئے 130 سال ہو چکے ہیں مگر کیا ہم لوگ سرسید کے مشن کو لے کر آگے چل پائے ہیں؟ یا ان کے مشن کو کتنا اگے بڑھا پائے اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر پلاننگ کمیشن کی سابق رکن ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید Dr. Syeda Syedain Hameed (Former Member, Planning Commission نے اے ایم یو کے حوالے سے اپنے دادا اور والد کی تحریریں بھی پیش کیں۔ آخر میں کتاب کے مصنف محمد وجیہ الدین نے سبھی مہمانان کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ علیگڑھ کی مٹتی ہوئی تہذیب و تمدن کو اس کتاب میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔