ETV Bharat / bharat

Exclusive Interview With Subramanian Swamy: 'بین الاقوامی رہنما مودی کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے، انتخابی جیت آر ایس ایس کی وجہ سے ہے' - سبرامنیم سوامی کا وزیراعظم مودی پر طنز

بی جے پی کے رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی اپنی بے باکی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی بات رکھتے ہیں۔ ای ٹی وی بھارت نے ان سے روس-یوکرین جنگ، پی ایم نریندر مودی کی بین الاقوامی مقبولیت پر بھارت کے ردعمل سے متعلق سوالات پوچھے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ عالمی رہنما مودی کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے۔ یہاں تک کہ انتخابات میں مسلسل جیت پر سوامی نے کہا کہ یہ مودی کی نہیں بلکہ آر ایس ایس کی جیت ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے سینئر نامہ نگار سوربھ شرما نے ان سے خصوصی بات چیت کی ہے۔ Subramanian Swamy In An Exclusive Interview With ETV Bharat

سبرامنیم سوامی سے ای ٹی وی بھارت کا خصوصی انٹرویو
سبرامنیم سوامی سے ای ٹی وی بھارت کا خصوصی انٹرویو
author img

By

Published : Mar 30, 2022, 6:43 AM IST

Updated : Mar 30, 2022, 8:10 AM IST

سوال: یوکرین پر روس کے حملے پر آپ کا ردعمل کیا ہے؟ کیا آپ کو یقین ہے کہ یوکرین امریکہ کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن چکا ہے اور وہ جنگ کی طرف لے گئے ہیں؟

جواب: نہیں، مجھے ایسا نہیں لگتا۔ یہ درست ہے کہ سوویت یونین کبھی دنیا کا سپر پاور ہوا کرتا تھا، لیکن اب وہ ایسا نہیں رہا۔ پیوتن غیر جمہوری طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم تین دن میں جنگ ختم کر دیں گے لیکن یہ 34ویں دن میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ان کی مدد کر رہے ہیں۔ اب پوری دنیا سے یوکرین کے لیے ہمدردی آ رہی ہے۔ وہ بہت بہادری سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ روس ان کی سرزمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ Subramanian Swamy In An Exclusive Interview With ETV Bharat

سوال: لیکن روس یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ ان پر سکیورٹی خطرہ پیدا ہو گیا ہے؟

جواب: دیکھئے اب یوکرین نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ وہ نیٹو میں شامل نہیں ہوگا اور یوکرین نے روس کے کسی علاقے پر حملہ بھی نہیں کیا۔ وہ 1992 تک ساتھ تھے۔ اس کے بعد وہ الگ ملک بننے پر راضی ہو گئے۔ دونوں اقوام متحدہ کے رکن ہیں۔ پیوتن نے یوکرین کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا، اب ان پر مزید دباؤ بڑھ رہا ہے۔

سوال: کیا اقوام متحدہ کے کردار پر سوال نہیں اٹھائے جا رہے ہیں؟

جواب: دیکھئے اقوام متحدہ تو بحث والی جگہ ہے۔ امن فوج بھیجنے تک ان کا کردار درست ہے لیکن جب بھی پی 5 کے ممالک جنگ میں شامل ہوتے ہیں تو اقوام متحدہ بے اثر ہو جاتا ہے۔ آج بھی اقوام متحدہ میں روس نہیں بلکہ یو ایس ایس آر لکھا ہوا ہے۔

سوال: روس یوکرین جنگ پر نئی دہلی نے جس طرح کا رد عمل ظاہر کیا ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

جواب: ہم روس سے ہتھیار خریدتے رہے ہیں، یہ صحیح ہے لیکن یہ افواہ پھیلانا کہ روس نے ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیا ہے یہ غلط ہے۔ یوکرین کو پاکستان کا اتحادی کہنا بھی غلط ہے۔ 1992 سے پہلے سوویت یونین بھارت کی حمایت کرتا تھا۔ اس وقت یوکرین بھی اس کا حصہ تھا۔

سبرامنیم سوامی سے ای ٹی وی بھارت کا خصوصی انٹرویو

سوال: لیکن یوکرین نے بھارت کے جوہری تجربے کی مخالفت کی۔

جواب: اگر ایسا ہے تو امریکہ نے بھی مخالفت کی تھی، برطانیہ نے بھی مخالفت کی تھی، دنیا کے دوسرے ممالک نے بھی بھارت کی مخالفت کی تھی۔ لیکن آج صورتحال بدل چکی ہے۔ آج ہمارے ان ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ہمیں یوکرین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ان کی مدد کرنی چاہیے۔

سوال: چین کے وزیر خارجہ ابھی بھارت آئے تھے۔ اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے، کیوں کہ یہاں آنے سے پہلے وہ افغانستان بھی گئے تھے۔

جواب: جی ہاں، چینی وزیر خارجہ نے حقانی سے ملاقات بھی کی۔ وہ افغانستان میں برسراقتدار ہے۔ وہ اقوام متحدہ کا نامزد دہشت گرد ہے۔ اس کے بعد چین کے وزیر خارجہ دہلی آئے۔ چین نے حقانی کو یقین دلایا ہے کہ وہ پی او کے کے ذریعے بی آر آئی لے جائیں گے۔ اس لیے میرا ماننا ہے کہ انھیں بھارت آنے کے لیے نہیں کہا جانا چاہیے تھا۔ لیکن یہاں وزیر خارجہ اور این ایس اے دونوں ان سے ملنے گئے۔ چین کے وزیر خارجہ فلسطین اور کشمیر کو ایک ہی سمجھتے تھے۔ چین نے ہماری چار ہزار کلومیٹر زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ایل اے سی پر معاہدے کے دوران طے پایا کہ جب تک حالات بہتر نہیں ہوتے، اوکسائی چین پاکستان کے حصے میں رہے گا۔ اس کے باوجود چین نے اس کی خلاف ورزی کی۔ اس لائن کو عبور کیا اور دیپسانگ تک پہنچ گئے۔ ڈیمچاک پر خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

سوال: چین بھی کہہ رہا ہے کہ کواڈ نیٹو جیسا ہے؟

جواب: اگر چین ایسی بات کر رہا ہے تو بتائیے ہم برکس کا حصہ ہیں یا نہیں۔ آپ بھی اس سے باہر نکل آئیے۔

سوال: افغانستان کے حوالے سے بھارت کا موقف کیا ہے؟

جواب: ہمارے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے۔ جیسے ہی امریکہ وہاں سے نکلا، ہم وہاں سے نکل گئے۔ جو کچھ ہم نے بنایا، سب ختم ہو گیا۔ یہ بھارت کے لیے خطرناک صورتحال ہے۔

سوال: پاکستان کی موجودہ سیاست پر آپ کا کیا کہنا ہے؟

جواب: میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ عمران خان کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ بھارت کے مطابق یہ اچھی بات ہے کہ پاکستان میں فوجی راج ہو، تب ہی یہاں امن رہے گا کیونکہ اصل طاقت ان کے پاس ہے۔

سوال: عالمی رہنما بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو کیسے دیکھتے ہیں، ان کی شبیہ کیسی ہے؟

جواب: کیا مودی خود کو سمجھتے ہیں کہ وہ بہت طاقتور اور ذہین رہنما ہیں؟ عالمی رہنما انہیں اس طور پر جانتے ہیں کہ وہ الیکشن جیتتے ہیں لیکن یوپی کے حالیہ انتخابات کی جیت میں یوگی آدتیہ ناتھ اور آر ایس ایس کا بڑا رول رہا ہے۔ مودی آخری دنوں میں ہی زیادہ متحرک ہو گئے۔ دنیا کے رہنما جانتے ہیں کہ وہ پارٹی کے سربراہ ہیں۔ انہیں کسی کی طرف سے کوئی چیلنج نہیں مل رہا۔ لیکن دنیا انہیں قابل اعتماد شراکت دار نہیں مانتی۔ کبھی وہ برکس میں جاتے ہیں تو کبھی کواڈز میں۔ اسی لیے بین الاقوامی رہنما کے طور پر ان کا احترام نہیں کیا جاتا۔ حتیٰ کہ چین اور روس بھی انہیں ایسا نہیں مانتے۔

سوال: چین کے ساتھ حالات خراب ہونے پر کیا روس بھارت کا ساتھ دے گا؟

جواب: نہیں، کبھی نہیں۔ 400 ایس میں چین کے الیکٹرانکس نصب ہیں۔ چین کی وجہ سے ہمیں یہ بعد میں ملا ہے۔

سوال: 2024 کے عام انتخابات کے حوالے سے کیا صورتحال ہوگی؟

جواب: انتخابات مودی کی نہیں آر ایس ایس کی وجہ سے جیت رہے ہیں۔ 2024 میں بھی یہی صورتحال رہے گی۔ آر ایس ایس کے لوگ بغیر پیسے لیے پولنگ بوتھ پر کام کرتے ہیں۔ وہ اپنا کام کرتے ہیں اور بغیر کچھ لیے واپس چلے جاتے ہیں۔ آر ایس ایس کو اس میں مہارت حاصل ہے۔ میں آر ایس ایس کی وجہ سے ایم پی بنا ہوں حلانکہ مودی ایسا نہیں چاہتے تھے۔

سوال: یوکرین پر روس کے حملے پر آپ کا ردعمل کیا ہے؟ کیا آپ کو یقین ہے کہ یوکرین امریکہ کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن چکا ہے اور وہ جنگ کی طرف لے گئے ہیں؟

جواب: نہیں، مجھے ایسا نہیں لگتا۔ یہ درست ہے کہ سوویت یونین کبھی دنیا کا سپر پاور ہوا کرتا تھا، لیکن اب وہ ایسا نہیں رہا۔ پیوتن غیر جمہوری طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم تین دن میں جنگ ختم کر دیں گے لیکن یہ 34ویں دن میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ان کی مدد کر رہے ہیں۔ اب پوری دنیا سے یوکرین کے لیے ہمدردی آ رہی ہے۔ وہ بہت بہادری سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ روس ان کی سرزمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ عام شہریوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ Subramanian Swamy In An Exclusive Interview With ETV Bharat

سوال: لیکن روس یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ ان پر سکیورٹی خطرہ پیدا ہو گیا ہے؟

جواب: دیکھئے اب یوکرین نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ وہ نیٹو میں شامل نہیں ہوگا اور یوکرین نے روس کے کسی علاقے پر حملہ بھی نہیں کیا۔ وہ 1992 تک ساتھ تھے۔ اس کے بعد وہ الگ ملک بننے پر راضی ہو گئے۔ دونوں اقوام متحدہ کے رکن ہیں۔ پیوتن نے یوکرین کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا، اب ان پر مزید دباؤ بڑھ رہا ہے۔

سوال: کیا اقوام متحدہ کے کردار پر سوال نہیں اٹھائے جا رہے ہیں؟

جواب: دیکھئے اقوام متحدہ تو بحث والی جگہ ہے۔ امن فوج بھیجنے تک ان کا کردار درست ہے لیکن جب بھی پی 5 کے ممالک جنگ میں شامل ہوتے ہیں تو اقوام متحدہ بے اثر ہو جاتا ہے۔ آج بھی اقوام متحدہ میں روس نہیں بلکہ یو ایس ایس آر لکھا ہوا ہے۔

سوال: روس یوکرین جنگ پر نئی دہلی نے جس طرح کا رد عمل ظاہر کیا ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

جواب: ہم روس سے ہتھیار خریدتے رہے ہیں، یہ صحیح ہے لیکن یہ افواہ پھیلانا کہ روس نے ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیا ہے یہ غلط ہے۔ یوکرین کو پاکستان کا اتحادی کہنا بھی غلط ہے۔ 1992 سے پہلے سوویت یونین بھارت کی حمایت کرتا تھا۔ اس وقت یوکرین بھی اس کا حصہ تھا۔

سبرامنیم سوامی سے ای ٹی وی بھارت کا خصوصی انٹرویو

سوال: لیکن یوکرین نے بھارت کے جوہری تجربے کی مخالفت کی۔

جواب: اگر ایسا ہے تو امریکہ نے بھی مخالفت کی تھی، برطانیہ نے بھی مخالفت کی تھی، دنیا کے دوسرے ممالک نے بھی بھارت کی مخالفت کی تھی۔ لیکن آج صورتحال بدل چکی ہے۔ آج ہمارے ان ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ہمیں یوکرین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ان کی مدد کرنی چاہیے۔

سوال: چین کے وزیر خارجہ ابھی بھارت آئے تھے۔ اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے، کیوں کہ یہاں آنے سے پہلے وہ افغانستان بھی گئے تھے۔

جواب: جی ہاں، چینی وزیر خارجہ نے حقانی سے ملاقات بھی کی۔ وہ افغانستان میں برسراقتدار ہے۔ وہ اقوام متحدہ کا نامزد دہشت گرد ہے۔ اس کے بعد چین کے وزیر خارجہ دہلی آئے۔ چین نے حقانی کو یقین دلایا ہے کہ وہ پی او کے کے ذریعے بی آر آئی لے جائیں گے۔ اس لیے میرا ماننا ہے کہ انھیں بھارت آنے کے لیے نہیں کہا جانا چاہیے تھا۔ لیکن یہاں وزیر خارجہ اور این ایس اے دونوں ان سے ملنے گئے۔ چین کے وزیر خارجہ فلسطین اور کشمیر کو ایک ہی سمجھتے تھے۔ چین نے ہماری چار ہزار کلومیٹر زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ایل اے سی پر معاہدے کے دوران طے پایا کہ جب تک حالات بہتر نہیں ہوتے، اوکسائی چین پاکستان کے حصے میں رہے گا۔ اس کے باوجود چین نے اس کی خلاف ورزی کی۔ اس لائن کو عبور کیا اور دیپسانگ تک پہنچ گئے۔ ڈیمچاک پر خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

سوال: چین بھی کہہ رہا ہے کہ کواڈ نیٹو جیسا ہے؟

جواب: اگر چین ایسی بات کر رہا ہے تو بتائیے ہم برکس کا حصہ ہیں یا نہیں۔ آپ بھی اس سے باہر نکل آئیے۔

سوال: افغانستان کے حوالے سے بھارت کا موقف کیا ہے؟

جواب: ہمارے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے۔ جیسے ہی امریکہ وہاں سے نکلا، ہم وہاں سے نکل گئے۔ جو کچھ ہم نے بنایا، سب ختم ہو گیا۔ یہ بھارت کے لیے خطرناک صورتحال ہے۔

سوال: پاکستان کی موجودہ سیاست پر آپ کا کیا کہنا ہے؟

جواب: میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ عمران خان کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ بھارت کے مطابق یہ اچھی بات ہے کہ پاکستان میں فوجی راج ہو، تب ہی یہاں امن رہے گا کیونکہ اصل طاقت ان کے پاس ہے۔

سوال: عالمی رہنما بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو کیسے دیکھتے ہیں، ان کی شبیہ کیسی ہے؟

جواب: کیا مودی خود کو سمجھتے ہیں کہ وہ بہت طاقتور اور ذہین رہنما ہیں؟ عالمی رہنما انہیں اس طور پر جانتے ہیں کہ وہ الیکشن جیتتے ہیں لیکن یوپی کے حالیہ انتخابات کی جیت میں یوگی آدتیہ ناتھ اور آر ایس ایس کا بڑا رول رہا ہے۔ مودی آخری دنوں میں ہی زیادہ متحرک ہو گئے۔ دنیا کے رہنما جانتے ہیں کہ وہ پارٹی کے سربراہ ہیں۔ انہیں کسی کی طرف سے کوئی چیلنج نہیں مل رہا۔ لیکن دنیا انہیں قابل اعتماد شراکت دار نہیں مانتی۔ کبھی وہ برکس میں جاتے ہیں تو کبھی کواڈز میں۔ اسی لیے بین الاقوامی رہنما کے طور پر ان کا احترام نہیں کیا جاتا۔ حتیٰ کہ چین اور روس بھی انہیں ایسا نہیں مانتے۔

سوال: چین کے ساتھ حالات خراب ہونے پر کیا روس بھارت کا ساتھ دے گا؟

جواب: نہیں، کبھی نہیں۔ 400 ایس میں چین کے الیکٹرانکس نصب ہیں۔ چین کی وجہ سے ہمیں یہ بعد میں ملا ہے۔

سوال: 2024 کے عام انتخابات کے حوالے سے کیا صورتحال ہوگی؟

جواب: انتخابات مودی کی نہیں آر ایس ایس کی وجہ سے جیت رہے ہیں۔ 2024 میں بھی یہی صورتحال رہے گی۔ آر ایس ایس کے لوگ بغیر پیسے لیے پولنگ بوتھ پر کام کرتے ہیں۔ وہ اپنا کام کرتے ہیں اور بغیر کچھ لیے واپس چلے جاتے ہیں۔ آر ایس ایس کو اس میں مہارت حاصل ہے۔ میں آر ایس ایس کی وجہ سے ایم پی بنا ہوں حلانکہ مودی ایسا نہیں چاہتے تھے۔

Last Updated : Mar 30, 2022, 8:10 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.