ETV Bharat / bharat

Bulldozing of Muslims Properties: انہدامی کارروائی پر مرکز اور ریاستی حکومتوں سے جواب طلب

دہلی کے جہانگیر پوری سمیت مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کی املاک پر چلنے والے غیر قانونی بلڈوز ر پر سپریم کورٹ نے آج سخت نوٹس لیا۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سمیت ایسے تمام صوبوں سے جواب طلب کیا جہاں حالیہ دنوں میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلایا گیا۔ SC over Bulldozing of Muslims Properties

سپریم کورٹ مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلانے پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے جواب طلب
سپریم کورٹ مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلانے پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے جواب طلب
author img

By

Published : Apr 21, 2022, 7:34 PM IST

دہلی کے جہانگیر پوری کے علاوہ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، گجرات اور اتراکھنڈ میں تجاوزات پر بلڈوزر چلانے کے معاملے میں سپریم کورٹ نے آج سخت نوٹس لیتے ہوئے مرکزی حکومت سمیت ایسے تمام صوبوں سے جواب طلب کیا ہے جہاں حالیہ دنوں میں انہدامی کارروائی کی گئی تھی۔ SC over Bulldozing of Muslims Properties

وہیں مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ سالیسٹر جنرل تشار مہتا کا جمعیۃ علماء پر یہ الزام لگانا کہ انہوں نے سیاسی اور غیر سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے پٹیشن داخل کی ہے، غلط ہے۔ یہ اطلاع جمعیۃ کی جاری کردہ پریس ریلیز میں دی گئی۔ ریلیز کے مطابق عدالت نے گذشتہ کل دہلی کی جہانگیر پوری میں کی گئی انہدامی کارروائی پر اسٹے برقرار رکھتے ہوئے عدالت کے اسٹے کے باوجود دیڑھ گھنٹے تک چلنے والی انہدامی کارروائی پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ میئر اور میونسپل کمیشنر سے جواب طلب کریں گے۔

آج سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس ناگیشور راؤ اور جسٹس گوَئی کے روبرو معاملے کی سماعت عمل میں آئی جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن پر بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل اور دشینت دوے نے عدالت کو بتایا کہ گذشتہ کل عدالت کے حکم کے باوجود مسلمانوں کی املاک پر یک طرفہ کارروائی کی گئی۔

کپل سبل نے عدالت کو بتایا کہ وہ آج سیاست کرنے نہیں بلکہ اقلیتوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعہ کیے جانے والے مظالم کے خلاف عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ سیاست کرنے کے لیے میرے پاس بہت مواقع ہیں لیکن عدالت کو آج مداخلت کر کے مسلمانوں کی املاک کو برباد ہونے سے بچانا چاہیے اور خوف کے ماحول میں زندگی گذار رہی اقلیتوں کے دلوں سے ڈر و خوف کو ختم کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بلڈوزر کی کارروائی پہلے اتر پردیش میں شروع ہوئی جو مختلف ریاستوں میں پھیل چکی ہے جس پر روک لگانا ضروری ہے۔

سینئر ایڈووکیٹ دشینت دوے نے بھی عدالت کو بتایاکہ ایک مخصوص طبقہ کو لگاتار نشانہ بنایا جارہا ہے۔ قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہانگیر پوری کی جامع مسجد کے اطراف میں سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد بھی دیڑھ گھنٹہ تک دکانوں اور مکانوں کا انہدام ہوتا رہا، اس درمیان متاثرین پولس اورایم سی ڈی افسران سے مسلسل یہ کہتے رہے کہ ٹی وی چینلوں پرخبر آ رہی ہے کہ سپریم کورٹ نے انہدامی کارروائی پر فوری روک لگا دی ہے۔ لہذا انہدامی کارروائی روکی جائے، مگر افسوس کہ اس مذموم سلسلہ کو انہوں نے نہیں روکا اور انہدامی کارروائی کو بدستورجاری رکھا۔

دریں اثناء حکومت کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے دو پٹیشن داخل کی گئی ہے۔ عدالت کے سامنے ایک بھی متاثر شخص نہیں آیا ہے۔ یہ تنظیمیں معاملے کو پیچیدہ کرنا چاہتی ہیں تاکہ اس کا سیاسی اور غیر سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔

تشار مہتا نے عدالت کو مزید بتایا کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف مذہب کی بنیاد پر کارروائی نہیں کی گئی ہے اور انہدامی کارروائی قانون کے مطابق کی گئی ہے جس پر عدالت نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے باکڑے اور ٹیبل کرسی ہٹانے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیوں کیا گیا، جس پر تشار مہتا نے گول مول جواب دیا جس سے ججوں نے اتفاق نہیں کیا اور جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن کو سماعت کے لیے منظور کرلیا اور فریقین کو حکم دیا کہ وہ دو ہفتوں کے اندر اپنا اپنا جواب داخل کریں۔عدالت نے ایک جانب جہاں دہلی کے جہانگیر پوری میں کی جارہی انہدامی کارروائی پر دیے گئے اسٹے کو برقرار رکھا تو وہیں یہ بھی کہا کہ اب دیگر ریاستیں انہدامی کارروائی کرنے سے گریز کریں گی۔ ایڈووکیٹ کپل سبل نے دیگر ریاستوں میں کی جانے والی کارروائی پر اسٹے کی مانگ کی تھی۔

آج کی عدالتی کارروائی پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء حضرت مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ انہدامی کارروائی پر اسٹے برقرار رکھنے کا عدالت کا فیصلہ خوش آئند ہے، لیکن سالیسٹر جنرل تشار مہتا کا جمعیۃ علماء پر یہ الزام لگانا کہ انہوں نے سیاسی اور غیر سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے پٹیشن داخل کی ہے غلط ہے۔ جمعیۃ علماء کا ہمیشہ سے مظلوموں کو انصاف دلانے اور انسانیت کی بنیاد پر بلا تفریق خدمت کرنے کا مشن ہے، جمعیۃ علماء اسی کے تحت میدان میں آئی ہے، ہمارا الیکشن سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں بندوق کی نوک پر انہدامی کارروائی ہوئی ہے وہاں کی عوام ڈری سہمی ہوئی ہے اور متاثرین اورانصاف پسند عوام کی درخواست پر ہی جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، کیونکہ ہمارا عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ معاملے کی اگلی سماعت پر ہمارے وکلاء متاثرین کی فہرست عدالت میں داخل کردیں گے اور ضرورت پڑی تو متاثرین کو بھی فریق بنا دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: جہانگیر پوری: تجاوزات ہٹانے پر سُپریم کورٹ نے دو ہفتے تک لگائی روک

یو این آئی

دہلی کے جہانگیر پوری کے علاوہ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، گجرات اور اتراکھنڈ میں تجاوزات پر بلڈوزر چلانے کے معاملے میں سپریم کورٹ نے آج سخت نوٹس لیتے ہوئے مرکزی حکومت سمیت ایسے تمام صوبوں سے جواب طلب کیا ہے جہاں حالیہ دنوں میں انہدامی کارروائی کی گئی تھی۔ SC over Bulldozing of Muslims Properties

وہیں مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ سالیسٹر جنرل تشار مہتا کا جمعیۃ علماء پر یہ الزام لگانا کہ انہوں نے سیاسی اور غیر سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے پٹیشن داخل کی ہے، غلط ہے۔ یہ اطلاع جمعیۃ کی جاری کردہ پریس ریلیز میں دی گئی۔ ریلیز کے مطابق عدالت نے گذشتہ کل دہلی کی جہانگیر پوری میں کی گئی انہدامی کارروائی پر اسٹے برقرار رکھتے ہوئے عدالت کے اسٹے کے باوجود دیڑھ گھنٹے تک چلنے والی انہدامی کارروائی پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ میئر اور میونسپل کمیشنر سے جواب طلب کریں گے۔

آج سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس ناگیشور راؤ اور جسٹس گوَئی کے روبرو معاملے کی سماعت عمل میں آئی جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن پر بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل اور دشینت دوے نے عدالت کو بتایا کہ گذشتہ کل عدالت کے حکم کے باوجود مسلمانوں کی املاک پر یک طرفہ کارروائی کی گئی۔

کپل سبل نے عدالت کو بتایا کہ وہ آج سیاست کرنے نہیں بلکہ اقلیتوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعہ کیے جانے والے مظالم کے خلاف عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ سیاست کرنے کے لیے میرے پاس بہت مواقع ہیں لیکن عدالت کو آج مداخلت کر کے مسلمانوں کی املاک کو برباد ہونے سے بچانا چاہیے اور خوف کے ماحول میں زندگی گذار رہی اقلیتوں کے دلوں سے ڈر و خوف کو ختم کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بلڈوزر کی کارروائی پہلے اتر پردیش میں شروع ہوئی جو مختلف ریاستوں میں پھیل چکی ہے جس پر روک لگانا ضروری ہے۔

سینئر ایڈووکیٹ دشینت دوے نے بھی عدالت کو بتایاکہ ایک مخصوص طبقہ کو لگاتار نشانہ بنایا جارہا ہے۔ قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہانگیر پوری کی جامع مسجد کے اطراف میں سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد بھی دیڑھ گھنٹہ تک دکانوں اور مکانوں کا انہدام ہوتا رہا، اس درمیان متاثرین پولس اورایم سی ڈی افسران سے مسلسل یہ کہتے رہے کہ ٹی وی چینلوں پرخبر آ رہی ہے کہ سپریم کورٹ نے انہدامی کارروائی پر فوری روک لگا دی ہے۔ لہذا انہدامی کارروائی روکی جائے، مگر افسوس کہ اس مذموم سلسلہ کو انہوں نے نہیں روکا اور انہدامی کارروائی کو بدستورجاری رکھا۔

دریں اثناء حکومت کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے دو پٹیشن داخل کی گئی ہے۔ عدالت کے سامنے ایک بھی متاثر شخص نہیں آیا ہے۔ یہ تنظیمیں معاملے کو پیچیدہ کرنا چاہتی ہیں تاکہ اس کا سیاسی اور غیر سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔

تشار مہتا نے عدالت کو مزید بتایا کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف مذہب کی بنیاد پر کارروائی نہیں کی گئی ہے اور انہدامی کارروائی قانون کے مطابق کی گئی ہے جس پر عدالت نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے باکڑے اور ٹیبل کرسی ہٹانے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیوں کیا گیا، جس پر تشار مہتا نے گول مول جواب دیا جس سے ججوں نے اتفاق نہیں کیا اور جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن کو سماعت کے لیے منظور کرلیا اور فریقین کو حکم دیا کہ وہ دو ہفتوں کے اندر اپنا اپنا جواب داخل کریں۔عدالت نے ایک جانب جہاں دہلی کے جہانگیر پوری میں کی جارہی انہدامی کارروائی پر دیے گئے اسٹے کو برقرار رکھا تو وہیں یہ بھی کہا کہ اب دیگر ریاستیں انہدامی کارروائی کرنے سے گریز کریں گی۔ ایڈووکیٹ کپل سبل نے دیگر ریاستوں میں کی جانے والی کارروائی پر اسٹے کی مانگ کی تھی۔

آج کی عدالتی کارروائی پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء حضرت مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ انہدامی کارروائی پر اسٹے برقرار رکھنے کا عدالت کا فیصلہ خوش آئند ہے، لیکن سالیسٹر جنرل تشار مہتا کا جمعیۃ علماء پر یہ الزام لگانا کہ انہوں نے سیاسی اور غیر سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے پٹیشن داخل کی ہے غلط ہے۔ جمعیۃ علماء کا ہمیشہ سے مظلوموں کو انصاف دلانے اور انسانیت کی بنیاد پر بلا تفریق خدمت کرنے کا مشن ہے، جمعیۃ علماء اسی کے تحت میدان میں آئی ہے، ہمارا الیکشن سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں بندوق کی نوک پر انہدامی کارروائی ہوئی ہے وہاں کی عوام ڈری سہمی ہوئی ہے اور متاثرین اورانصاف پسند عوام کی درخواست پر ہی جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، کیونکہ ہمارا عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ معاملے کی اگلی سماعت پر ہمارے وکلاء متاثرین کی فہرست عدالت میں داخل کردیں گے اور ضرورت پڑی تو متاثرین کو بھی فریق بنا دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: جہانگیر پوری: تجاوزات ہٹانے پر سُپریم کورٹ نے دو ہفتے تک لگائی روک

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.