پٹنہ: سر سید احمد خان نے تعلیم میں جو انقلاب برپا کیا، آج ہمارے ملک کو ایک بار پھر اسی انقلاب کی ضرورت ہے۔ آج صرف ایک علی گڑھ، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے کام نہیں چلے گا بلکہ ترقی یافتہ دور میں علی گڑھ و جامعہ کے طرز پر کئی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جس فکر اور دوراندیشی کے ساتھ سرسید نے تعلیمی مشن کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اس سے ہندوستان کا ہر ایک فرد فیضیاب ہو، سر سید احمد خان نے ہندوستان میں مسلمانان ہند کے لئے جدید تعلیم کا جو خاکہ تیار کیا تھا۔ اس کی معنویت آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔ مذکورہ باتیں کالج آف کامرس کے صدر شعبہ اردو و ماہر تعلیم پروفیسر صفدر امام قادری نے کہی۔ Sir Syed Day
پروفیسر صفدر امام قادری نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ جس ادارے کو سر سید نے خون پسینے سے قائم کیا تھا، اس ادارے سے آج تک سر سید کے تمام مضامین یکجا کر کے شائع نہیں کیا جا سکا، اسی طرح ادارے کی طرف سے ان کی حیات و خدمات پر کوئی ایسی کتاب مرتب نہیں کرا سکی، جس میں سر سید کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہو، یوم سر سید پر ملک بھر میں و بیرون ملک میں جشن منایا جاتا ہے، جتنا خرچ جشن منانے میں ہوتا ہے، اس رقم سے سال میں ایک یونیورسٹی قائم ہو سکتی ہیں۔ Professor Safdar Imam Qadri on Sir Syed Ahmad Khan
پروفیسر صفدر امام قادری نے کہا کہ سر سید کا بہار سے براہ راست تعلق تھا، جس وقت سرسید یونیورسٹی قائم کرنے کا ارادہ کر رہے تھے تو ان کے سامنے تین مقام زیر غور تھا، جس میں دہلی، علی گڑھ کے ساتھ پٹنہ بھی شامل تھا، کیونکہ انہیں عظیم آباد کے علمی مقام و مرتبہ کا خوب اندازہ تھا۔ اسی سلسلے میں وہ پٹنہ تشریف لائے تھے اور یہیں تاریخی خطبہ دیتے ہوئے 'بھارت ماتا کی دو آنکھیں ہندو اور مسلمان' کہا تھا۔ آج بھی ان سے منصوب یہاں ادارے قائم ہیں، جسے اورینٹل کالج کہا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Sir Syed Day: سرسید معمار اور مصلحِ قوم تھے