اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بھارت میں کووِڈ 19 کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر طبقہ مہاجر مزدوروں کا ہے۔ مسلسل لاک ڈاون کے باعث مصیبتوں سے جوجھ رہے مہاجر مزدوروں کی مجموعی تعداد سے متعلق تفصیلات میسر نہیں ہیں۔ لیکن جتنے بھی مزدوروں کو واپس اپنے گھروں کو جانے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا گیا، وہ دل دہلا دینے والی حالت میں تھے۔ بڑی تعداد میں مہاجر مزدوروں کا شہری علاقوں سے دیہات میں واقع اُن کے گھروں کو جاتے ہوئے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت میں گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران اِن مزدوروں کے تئیں سماجی اور سیاسی سطح پر کس قدر بے حسی پروان چڑھی ہے۔
مہاجر مزدوروں کے تئیں ہمدردی جتلانے سے متعلق سوشل میڈیا پر بپا شور وغل اور ریاستی سرکاری کی جانب سے ان کے لئے خصوصی ٹرینیں چلانے سے متعلق زبانی جمع خرچ کو دیکھ کریہ بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ مزدور دہائیوں سے کس طرح کی عدم مساوات کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ اُن کا عدم مساوات کا شکار ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ مہاجر مزدوروں سے متعلق عدم مساوات کی تازہ مثالوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ کس حد تک سماجی بیگانگی اور مالی بدحالی کا شکار ہیں۔ روایتی طور پر ماضی میں کارخانوں کے مالکان اور مزدوروں کے درمیان ایک مضبوط بندھن رہا ہے، لیکن دور جدید کے معاشی نظام میں سرمایہ داروں کا مزدوروں کے ساتھ کوئی ہمدردانہ تعلق دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔
مزدوروں کو سرمایہ کاروں کی بیگانگی سے دوچار کرنے میں ٹھیکداروں کا بھی ایک بڑا کردار ہے۔ ان کی وجہ سے ہی یہ مزدور مالی بدحالی کا بھی شکار ہیں اور سرمایہ کاروں پر اُن کا انحصار بھی بڑھ گیا ہے۔ مہاجر مزدوروں کا غالب طبقہ ان ٹھیکداروں کے ہی رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ یہ مزدور اپنے حقوق سے بھی ناواقف ہیں اور صنعتی اداروں کے لئے کام کرنے والے ان مزدوروں کی اکثریت رجسٹرڈ بھی نہیں ہوتی ہے۔ در اصل غیر رجسٹرڈ مزدور کارخانوں کے لئے زیادہ بہتر خدمات فراہم کرتے ہیں اور اس لحاظ سے وہ ان کے لئے سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ کارخانہ داروں کی جانب سے مزدوروں کی یہ بے قدری بھارت، جو تعمیر و ترقی کی دوڈ میں لگا ہوا ہے، میں ایک معمول بن گیا ہے۔ اس غیر معمولی لاک ڈاون کے دوران صنعتوں اور مزدوروں کے ٹھیکداروں نے مزدوروں کے تئیں اپنی ذمہ داریوں سے ہاتھ کھینچ کر انہیں معاشی بدحالی سے دوچا کردیا۔ حکومت نے بھی ان ورکرز پر لاک ڈاون کے اثرات کا پیشگی جائزہ نہ لیتے ہوئے سیاسی سطح پر اُن کے تئیں عدم مساوات کا مظاہرہ کیا۔
مہاجر مزدوروں کے تئیں سیاسی عدم مساوات کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ انتخابی سیاست میں غریبوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ چونکہ مہاجر ورکرز اپنے آبائی علاقوں سے دور شہری علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں سیاسی سطح پر اُن کا کوئی پرساں حال نہیں ہوتا ہے۔ کام کی تلاش میں ایک شہر سے دوسرے شہروں میں گھومتے رہنے والے ان مزدوروں کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کے انتخابی مفادات بھی جڑے نہیں ہوتے ہیں۔ ایک بار اگر سیاسی جماعتوں کو لگے کہ یہ مہاجر ورکز اُن کے حق میں ووٹ ڈالنے والے ہوسکتے ہیں تو وہ دور دراز علاقوں میں بھی ان کی مدد کرنے کےلئے سامنے آجائیں گی۔ اس ضن میں اڑیسہ کے وزیر اعلیٰ نوین پٹنائک کی مثال دی جاسکتی ہے، جو دسمبر 2018ء میں یعنی 2019ء کے قومی انتخابات سے کچھ عرصہ قبل گجرات کے سورت شہر پہنچ گئے، جہاں اُنہوں نے اڑیسہ کے مہاجر مزدوروں یعنی اپنے متوقع ووٹروں کو لبھانے کی کوشش کی۔ چونکہ مہاجر مزدوروں کی اکثریت کا انتخابی نتائج پر کوئی زیادہ اثر ڈالنے کے متحمل نہیں ہوتے ہیں، اس لئے انہیں کووِڈ 19 کے دوران سیاسی جماعتوں نے نظر انداز کردیا۔
ثانیاً یہ کہ مزدوروں کی شناخت بھی انہیں سیاسی سطح پر عدم تحفظ کا شکار بنادیتی ہے۔ کیونکہ عمومی طور پر اُنہیں کسی مخصوص طبقے یا مذہب کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر ان مزدوروں کی کوئی مذہبی یا ذات پات کی شناخت ہوتی تو متعلقہ سیاسی قوتیں اُن کی مدد کرنے کو پہنچ گئی ہوتیں۔ بھارت کی سیاست میں ٹریڈ یونینز کا محدود کردار اور ملک میں کمونسٹ پارٹیوں کے سکڑتے ہوئے دائرے کی وجہ سے بھی مزدور طبقہ کی اس بدحالی کو جوڑ کر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس بحران میں ہم نے کمونسٹ پارٹیوں کی جانب سے ان مزدوروں کی مدد کرنے کےلئے کوئی قابل ذکر کوششیں نہیں دیکھیں۔ جبکہ ٹریڈ یونینز کی جانب سے بھی ان مزدوروں کے تئیں ایسا ہی رویہ دیکھنا کو ملا۔
سماجی سطح پر مہاجر مزدوروں کا کم تر رتبہ، ان کے تئیں عدم مساوات کی تیسری وجہ ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ زراعت سے جڑے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے نوکریوں کی تلاش میں شہروں کا رخ کیا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں بھی مہاجر ورکرز کا سماجی رتبہ تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔ یعنی جب تک وہ زراعت سے جڑے تھے، اُن کے آبائی علاقوں میں ان کا کافی حد تک سماجی سطح پر مان سمان تھا۔ شہروں کی طرف منتقل ہوجانے سے اُن سے یہ رتبہ چھین گیا۔ کیونکہ شہروں میں اُنہیں محض مہاجر مزدور تصور کیا جاتا ہے۔ اس طرح سے ان کا سماجی رتبہ کم ہوگیا ہے۔ زراعت کے شعبے سے وابستہ مزدوروں سے شہری علاقوں میں مہاجر مزدور بننے کی وجہ سے وہ سماجی بے حسی کا نشانہ بن گئے ہیں۔
کووِڈ 19 کے اس بحران میں مہاجر مزدوروں کا سماجی رتبہ مزید متاثر ہوا ہے۔ اس کی کوئی دوسری مثال ماضی میں کبھی بھی دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ وبا اور غیر معمولی لاک ڈاون کے نتیجے میں مہاجر مزدوروں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور جس طرح سے اُن کا روزگار ختم ہوگیا، اُس کو دیکھ کر واضح ہوجاتا ہے کہ وہ برسوں سے سماج میں کس حد تک عدم مساوات اور معاشی عدم تحفظ کا شکار رہے ہیں۔ جبکہ ریاستی حکومتوں کی جانب سے اُن کے تئیں محض زبانی جمع خرچ نے بھی ان مہاجر مزدوروں کے تئیں حکومت کی بے حسی کو عیاں کردیا ہے۔ یہ صورتحال پالیسی سازوں کے ماینڈ سیٹ میں فوری تبدیلی کی متقاضی ہے۔ اگرچہ سماجی سطح پر ان مزدروں کے تئیں اظہار ہمدردی سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شہری ان کے تئیں حساس جذبات رکھتے ہیں، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مہاجر ورکرز کو با اختیار بنایا جائے اور اُنہیں اُن کے حقوق فراہم کئے جائیں تاکہ اُن سے متعلق اس طرح کی صورتحال دوبارہ کبھی دیکھنے کو نہ ملے۔
( ڈاکٹر انشومان بہرا نیشنل انسٹی چیوٹ آف ایڈوانسڈ سٹیڈیز (این آئی اے ایس)، بنگلورو میں ایسوسیٹ پروفیسر ہیں)