اس دوران بل کی خوبیوں و خامیوں اور متعلقہ مسائل پر حزب اقتدار اور اپوزیشن کے درمیان سخت بحث ہوئی۔
مسلم خواتین (حقوق کا تحفظ) بل 2019 کو ایوان میں پیش کرنے کی کارروائی شروع ہوئی تو آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن اسد الدین اویسی نے کہا کہ وہ اس بل پر اعتراض درج کرانا چاہتے ہیں۔ اس پر اسپیکر اوم برلا نے کہا کہ اعتراض اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب بل کو وزیر قانون روی شنکر پرساد ایوان میں پیش کر دیں۔
مسٹر اویسی کے اعتراض کو کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری سمیت کئی اپوزیشن لیڈروں کی حمایت ملی۔ مسٹر روی شنکر پرساد نے کہا کہ بل مسلم خواتین کو انصاف دلانے کے لیے ہے۔
سپریم کورٹ نے تین طلاق کے رواج کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس بارے میں حکومت کو قانون بنانا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد بھی 229 ایسے معاملے آئے ہیں۔ انهوں نے کہا کہ نئے قانون سے طلاق کی اس رسم کا غلط استعمال کرنے کے رجحان پر روک لگے گی۔
کانگریس کے ششی تھرور، ریولیشنری سوشلسٹ پارٹی کے این کے پریم چندرن اور مسٹر اویسی نے اعتراض ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے متعدد آئینی دفعات اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
وزیر قانون نے ان اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تین طلاق روکنے کے لیے بل کو 2017 اور 2018 میں دو بار اسی ایوان سے منظور کیا جا چکا ہے اور یہ مسلم خواتین کے احترام سے متعلق ہے۔
مسٹر اویسي نے کہا کہ"اگر آپ مسلم خواتین کی اتنی فکر کرتے ہیں تو آپ سبري مالا کے معاملے میں ہندو خواتین کے بارے میں فکر کیوں نہیں کرتے۔ بعد میں انہوں نے اس بل کو پیش کیے جانے سے پہلے ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔ ووٹنگ میں 186 ارکان نے حمایت میں اور 74 ارکان نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ اکثریت کی حمایت کو دیکھتے ہوئے بل پیش کیا گیا۔
سنہ 2017 اور 2018 میں بھی تین طلاق سے متعلق بل لوک سبھا میں دو بار منظور کیا گیا تھا لیکن راجیہ سبھا میں یہ بل پھنس گیا تھا۔ سولہویں لوک سبھا تحلیل ہونے کے بعد متعلقہ بل راجیہ سبھا میں خود کار طریقے سے منسوخ ہوگیا تھا اور نیا بل 21 فروری کو جاری آرڈیننس کے مقام پر لایا گیا ہے۔