مولانا سید محمود مدنی نے بابری۔ایودھیا کیس پر فیصلہ آنے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں اپنے احساسات شئیر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں شکست کا احساس ہوا، اب کریں تو کیا کریں۔"
بابری کیس پر مسلم قیادت کے ذریعہ عمل اور رد عمل کے طریقوں اور اثرات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'سب کے سوچنے کا طریقہ الگ الگ ہوتا ہے، لوگوں نے اپنی اپنی فہم کے مطابق کوشش کی، لیکن مجھے بہت غصہ تھا، جس کا اظہار میں نے کیا۔"
مولانا مدنی نے مسلم قیادت کے کردار پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ 'مسلم قیادت کیا کرے، قائد بھی کیا کرے اور قوم بھی کیا کرے، حالات ہی ایسے ہیں، کوشش تو کی سب نے، میں مانتا ہوں کہ شروع زمانے میں کچھ غلطیاں ہوئیں، مگر بعد میں پوری سنجیدگی سے مقدمہ لڑاگیا، لیکن اگر یہی کوشش شروع سے ہوئی ہوتی اور درمیان میں ملی قیادت کے ہاتھوں اس پر سیاست نہیں ہوتی، تو شاید صورت حال مختلف ہوتی۔'
مولانا مدنی نے فیصلہ کے خلاف شدید ردعمل کیوں ظاہر کیا؟ جس کا جواب انہوں نے یہ کہتے ہوئے دیا کہ 'میرا ایک ہی مشن ہے، ظلم کے خلاف بولنا بہت ضروری ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ مسلمان کو رد عمل کے چکر میں نہیں پڑنا چاہئے، عمل کرنا چاہیے، نوجوان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اس فیصلہ کا جواب دینا ہے تو نمازی بن کر دینا ہے'۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ 'وزیر اعظم نریندر مودی مسلمانوں کے معاملہ میں من مانی کرتے ہیں، وہ بھارتی سماج کو ایک نظر سے نہیں دیکھتے، یہ ملک کے پہلے ایسے وزیر اعظم ہیں، اٹل جی بھی ایسے نہیں تھے، مودی نے مسلمانوں کو گٹر میں ڈال دیا ہے'۔