ETV Bharat / bharat

'قائد کیا کرے، قوم کیا کرے؟ حالات ہی ایسے ہیں' - بھارتی مسلمانوں کے لیے پی ایم مودی

بھارت کی مشہور مسلم شخصیت اور جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی جو اپنے بے باک بیانات کے لیے جانے جاتے ہیں، ای ٹی وی بھارت کو انٹرویو دیتے ہوئے مایوس اور شکستہ نظر آئے۔

Mahmood Madani on ayodhya verdict
author img

By

Published : Nov 11, 2019, 8:01 PM IST

مولانا سید محمود مدنی نے بابری۔ایودھیا کیس پر فیصلہ آنے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں اپنے احساسات شئیر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں شکست کا احساس ہوا، اب کریں تو کیا کریں۔"

ایودھیا فیصلے پر محمود مدنی کا بیان۔

بابری کیس پر مسلم قیادت کے ذریعہ عمل اور رد عمل کے طریقوں اور اثرات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'سب کے سوچنے کا طریقہ الگ الگ ہوتا ہے، لوگوں نے اپنی اپنی فہم کے مطابق کوشش کی، لیکن مجھے بہت غصہ تھا، جس کا اظہار میں نے کیا۔"

مولانا مدنی نے مسلم قیادت کے کردار پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ 'مسلم قیادت کیا کرے، قائد بھی کیا کرے اور قوم بھی کیا کرے، حالات ہی ایسے ہیں، کوشش تو کی سب نے، میں مانتا ہوں کہ شروع زمانے میں کچھ غلطیاں ہوئیں، مگر بعد میں پوری سنجیدگی سے مقدمہ لڑاگیا، لیکن اگر یہی کوشش شروع سے ہوئی ہوتی اور درمیان میں ملی قیادت کے ہاتھوں اس پر سیاست نہیں ہوتی، تو شاید صورت حال مختلف ہوتی۔'

مولانا مدنی نے فیصلہ کے خلاف شدید ردعمل کیوں ظاہر کیا؟ جس کا جواب انہوں نے یہ کہتے ہوئے دیا کہ 'میرا ایک ہی مشن ہے، ظلم کے خلاف بولنا بہت ضروری ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ مسلمان کو رد عمل کے چکر میں نہیں پڑنا چاہئے، عمل کرنا چاہیے، نوجوان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اس فیصلہ کا جواب دینا ہے تو نمازی بن کر دینا ہے'۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ 'وزیر اعظم نریندر مودی مسلمانوں کے معاملہ میں من مانی کرتے ہیں، وہ بھارتی سماج کو ایک نظر سے نہیں دیکھتے، یہ ملک کے پہلے ایسے وزیر اعظم ہیں، اٹل جی بھی ایسے نہیں تھے، مودی نے مسلمانوں کو گٹر میں ڈال دیا ہے'۔

مولانا سید محمود مدنی نے بابری۔ایودھیا کیس پر فیصلہ آنے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں اپنے احساسات شئیر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں شکست کا احساس ہوا، اب کریں تو کیا کریں۔"

ایودھیا فیصلے پر محمود مدنی کا بیان۔

بابری کیس پر مسلم قیادت کے ذریعہ عمل اور رد عمل کے طریقوں اور اثرات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'سب کے سوچنے کا طریقہ الگ الگ ہوتا ہے، لوگوں نے اپنی اپنی فہم کے مطابق کوشش کی، لیکن مجھے بہت غصہ تھا، جس کا اظہار میں نے کیا۔"

مولانا مدنی نے مسلم قیادت کے کردار پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ 'مسلم قیادت کیا کرے، قائد بھی کیا کرے اور قوم بھی کیا کرے، حالات ہی ایسے ہیں، کوشش تو کی سب نے، میں مانتا ہوں کہ شروع زمانے میں کچھ غلطیاں ہوئیں، مگر بعد میں پوری سنجیدگی سے مقدمہ لڑاگیا، لیکن اگر یہی کوشش شروع سے ہوئی ہوتی اور درمیان میں ملی قیادت کے ہاتھوں اس پر سیاست نہیں ہوتی، تو شاید صورت حال مختلف ہوتی۔'

مولانا مدنی نے فیصلہ کے خلاف شدید ردعمل کیوں ظاہر کیا؟ جس کا جواب انہوں نے یہ کہتے ہوئے دیا کہ 'میرا ایک ہی مشن ہے، ظلم کے خلاف بولنا بہت ضروری ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ مسلمان کو رد عمل کے چکر میں نہیں پڑنا چاہئے، عمل کرنا چاہیے، نوجوان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اس فیصلہ کا جواب دینا ہے تو نمازی بن کر دینا ہے'۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ 'وزیر اعظم نریندر مودی مسلمانوں کے معاملہ میں من مانی کرتے ہیں، وہ بھارتی سماج کو ایک نظر سے نہیں دیکھتے، یہ ملک کے پہلے ایسے وزیر اعظم ہیں، اٹل جی بھی ایسے نہیں تھے، مودی نے مسلمانوں کو گٹر میں ڈال دیا ہے'۔

Intro:"وزیر اعظم نے مسلمانوں کو "گٹر" میں ڈال دیا"

"بابری پر سیاست نہیں ہوتی تو تصویر الگ ہوتی۔۔"

" قائد کیا کرے، قوم کیا کرے ؟ حالات ہی ایسے تھے"


EXCLUSIVE
(ویڈیو میں سب ٹائٹل کی شکل میں بیانات کا حصہ لگائیں، بہت اہم اور کسی بھی ٹی وی کے لئے ان کا پہلا انٹرویو ہے)


بھارت کی مشہور مسلم شخصیت اور جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی نے بابری-ایودھیا پر فیصلہ آنے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں اپنے احساسات شئیر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں شکست کا احساس ہوا، اب کریں تو کیا کریں۔"

مولانا محمود مدنی جو اپنے بیباک بیانات کے لئے جانے جاتے ہیں، ای ٹی وی بھارت کو انٹرویو دیتے ہوۓ مایوس اور شکستہ نظر آئے۔ بابری مسئلہ پر مسلم قیادت کے ذریعہ عمل اور رد عمل کے طریقوں اور اثرات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب کے سوچنے کا طریقہ الگ الگ ہو تا ہے، لوگوں نے اپنی اپنی فہم کے مطابق کوشش کی، لیکن مجھے بہت غصہ تھا، جس کا اظہار میں نے کیا۔"

مولانا مدنی نے مسلم قیادت کے کردار پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ " مسلم قیادت کیا کرے، قائد بھی کیا کرے اور قوم بھی کیا کرے، حالات ہی ایسے ہیں، کوشش تو کی سب نے، میں مانتا ہوں کہ شروع زمانے میں کچھ غلطیاں ہوئیں، مگر بعد میں پوری سنجیدگی سے مقدمہ لڑاگیا، لیکن اگر یہی کوشش شروع سے ہوئی ہوتی اور درمیان میں ملی قیادت کے ہاتھوں اس پر سیاست نہیں ہوتی، تو شاید صورت حال مختلف ہوتی۔"

مولانا مدنی نے فیصلہ کے خلاف شدید ردعمل کیوں ظاہر کیا؟ جس کا جواب انہوں نے یہ کہتے ہوئے دیا کہ میرا ایک ہی مشن ہے، ظلم کے خلاف بولنا بہت ضروری ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ مسلمان کو رد عمل کے چکر میں نہیں پڑنا چاہئے، عمل کرنا چاہیئے، نوجوان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اس فیصلہ کا جواب دینا ہے تو نمازی بن کر دینا ہے۔"


ایک سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ وزیر اعظم نریندررمودی مسلمانوں کے معاملہ میں من مانی کرتے ہیں، وہ ہندوستانی سماج کو ایک نظر سے نہیں دیکھتے، یہ ملک کے پہلے وزیر اعظم ہیں، اٹل جی بھی ایسے نہیں تھے، انہوں نے مسلمانوں کو گٹر میں ڈال دیا ہے۔


Body:@


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.