ہفتے کے روز یورپی شہروں میں ہزاروں افراد نے پولیس کی بربریت اور نسل پرستی کے خلاف ریلی نکالی۔
مظاہروں کے دوران خاص طور پر لندن میں دائیں بازو کے مظاہرین نے پہلی بار بڑے گروپز میں شرکت کی۔
لندن کے اسکاٹ لینڈ یارڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ' قانون نافذ کرنے والے اداروں پر پرتشدد حملہ اور اسلحہ رکھنے سمیت جرائم کے الزام میں سو سے زائد افراد کو لندن میں گرفتار کیا گیاہے'۔
میٹرو پولیٹن پولیس نے ٹویٹر پر کہا ہے کہ 'ان سو سے زائد افراد کو امن کی خلاف ورزی، پرتشدد سرگرمیاں، افسران پر حملہ، جارحانہ اسلحہ رکھنے، طبقاتی کشمکش اور نشے آوری سمیت جرائم کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے'۔
برطانیہ کی ہوم سکریٹری پریتی پٹیل نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ جاری کورونا وائرس کے خطرے کی وجہ سے احتجاج نہ کریں۔
پریتی پٹیل نے کہا ہے کہ 'ٹھیک ہے مجھے لگتا ہے کہ یہ صرف حقائق بیان کررہے ہیں۔ ہم ابھی صحت کی ایمرجنسی میں ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ لوگوں کو جمع نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں احتجاج نہیں کرنا چاہئے'۔
انہوں نے کہا 'ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ ہم صحت کے لیے مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں'۔
واضح رہے کہ امریکہ میں پولیس کی تحویل میں افریقی نژاد امریکی شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد 'بلیک لائفز میٹر' کے مظاہرے دنیا بھر میں شروع ہوئے ہیں۔
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد نسل پرستوں کے خلاف مظاہروں کے عالمی سطح پر پھیلاؤ کے نتیجے میں پولیس محکموں کو ناکام بنانے اور کنفیڈریٹ کے مجسموں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔