یاد غالب کے عنوان سے منعقدہ مذاکرہ میں ممتاز دانشوروں نے شرکت کی اور غالب کی شاعری کے ساتھ ان کی نثری خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
اردو کے ممتاز شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی ولادت 27 دسمبر 1797ءکو ہوئی تھی اور انتقال 15 فروری 1869ء کو ہوا، غالب کی نشو نما جس عہد میں ہوئی اس عہدے میں فارسی اور اردو کے ممتاز شعراء کی کہکشاں موجود تھی لیکن غالب نے اپنے منفرد اسلوب سے نہ سب کو متوجہ کیا بلکہ ایسے اشعار قلمبند کیں کہ آج بھی مفکر ان کے اشعار پر اپنا سر دھنتے ہیں-
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ریجنل سینٹر بھوپال میں منعقدہ مذاکرہ میں جہاں غالب کے فارسی اشعار کو اردو میں منتقل کرنے پر زور دیا وہیں بھوپال اور غالب کے حوالے سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا-
غالب کو نواب سکندرجہاں، نواب صدیق حسن خان، نواب شاہ جہاں بیگم کے ذریعہ بھوپال بلانے کی بہت کوشش کی گئی تھی لیکن غالب سے دہلی کی گلیاں نہیں چھوٹی، بھوپال میں غالب کے گیارہ شاگرد تھے یہی نہیں وہ پانی میں غالب کے کلام کی دریافت کے ساتھ ساتھ نسخہ حمیدیہ کی اشاعت بھی بھوپال میں ہی ہوئی تھی۔