کسی ملک میں کسی تنازع کی وجہ سے بد امنی ہو تو وہاں کی تعمیرو ترقی رک جاتی ہے،پھر چاہے وہ تنازع سیاسی ہو یا کچھ اور۔متنازعہ علاقوں کے لوگ غیر متنازعہ اور مستحکم علاقوں کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ شکی المزاج ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ انکے یہاں معمولی چیزوں یا سرگرمیوں پر بھی شک کیا جاتا ہے۔
فی الواقع تنازعہ یا کوئی بحرانی صورتحال کسی بھی قوم یا برادری کے مستقبل کے لوازمات،اسکی سماجی اقدار،صحتِ عامہ کے نظام اور اُن تمام دیگر چیزوں کو شدید دھچکہ پہنچاتی ہے جو اس قوم کے مستقبل کو بہتر بنانے میں اہم کردار رکھتی ہوں ۔ کسی بھی انسانی مسئلے یا بحران کے درپیش آنے پر بھروسے کے فقدان یا شکوک و شبہات کو کوئی جگہ نہیں ملنی چاہیئے لیکن کشمیر کے تناظر میں ایسا نہیں ہے۔
بعض اوقات یہ نظام سرکار میں لوگوں کا عدمِ اعتماد ہے کہ جو معاشروں کے مسائل کو دور کرنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے کشمیر ایک عمدہ مثال ہے جہاں 60 لاکھ کی آبادی ، دُنیا کے کسی بھی علاقے کی ہی طرح کووِڈ19- کی وبا کے موجب کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے ، مکمل طور پر لاک ڈاؤن ہے۔
وادی کشمیر کے 10 اضلاع میں کئی علاقوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے ریڈ زون قرار دیا جاچکا ہے جسکا مقصد کورونا وائرس کو ان علاقوں سے باہر جانے سے روک کر اسکے پھیلاؤ کے سلسلہ (چین) کو توڑنا ہے تاکہ پہلے سے متاثرہ ان علاقوں کے پڑوسی علاقے متاثر نہ ہونے پائیں۔ وبا کی زد میں آچکے علاقوں کے دائرے میں آنے والے پانچ کلومیٹر کے علاقہ کو بفر زون یا کم خطرے والا علاقہ قرار دیا جارہا ہے۔
ریڈ اور بفر زون کہلانے والے ان علاقوں کیلئے باضابطہ ضابطۂ اخلاق بنایا جاچکا ہے کہ یہاں کیسے اور کس طرح رہا جاسکتا ہے۔ریڈ زونز کے ارد گرد کنکریٹ رکاوٹیں ڈالکر ان علاقوں کو ٹھیک اسی طرح کیا گیا ہے جس طرح پہلے زمانے میں کوڑھ کے مریضوں کے مختص بستیوں کے ساتھ کیا جاتا تھا،گویا انہیں الگ تھلگ کردیا گیا ہے تاکہ یہاں کسی کا اندراج یا یہاں سے کسی کا اخراج ممکن نہ ہو ۔کشمیر کے ریڈ زونز کے متعلق جو تصاویر سوشل میڈیا پر آرہی ہیں بہت ڈرا دینے والی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان مخصوص علاقوں کی ساری آبادی بیماری میں مبتلا ہوگئی ہو۔یہ سب تاہم بلا شُبہ لوگوں کی مجموعی بہتری کیلئے کیا جارہا ہے تاکہ ان علاقوں کو شکار بنا چکی یہ وبا آس پڑوس کی بستیوں میں نہ پھیل پائے۔ البتہ مرکزی سڑکوں کو کھودنا اور گاڑیوں کی آمد و رفت کو روکنے کیلئے دھات کے بھاری بھرکم مستقل ڈھانچے کھڑا کئے جانے پر کشمیر کے مختلف دانشمندانہ حلقوں میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
بعض لوگ سرکار کی جانب سے قرار دئے جاچکے ریڈ زونز کی فہرست کو دیکھتے ہوئے اسے ایک سازش اور اس سے قبل وادی میں ہوتی رہی تالہ بندی اور کرفیو کی کڑی کے بطور دیکھتے ہیں جو گذشتہ سال 5 اگست کو سابق ریاست کی دہائیوں پُرانی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے وقت سے لیکر مہینوں تک جاری رہا تھا۔
آج کووِڈ19-کی وجہ سے ریڈ زون قرار دئے جاچکے بیشتر علاقے اس سے قبل سیاسی ریڈ زون تھے اور انہیں، یہاں ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور تشدد کو دوسرے علاقوں میں پھیلنے سے روکنے کیلئے غیر معمولی فوجی ذرائع کا استعمال کرکے یونہی تنہا کردیا گیا تھا۔
سرینگر کا ڈاون ٹاون سب سے زیادہ مدافعانہ علاقہ رہا ہے جہاں کے لوگ کبھی بھی سرکارکے ساتھ متفق نہیں رہے ہیں۔ یہاں تک کہ سرکار نے ایل ای ڈی بلب تقسیم کرنے کی ایک اسکیم بنائی تو اسے بھی لوگوں پر نگرانی کئے جانے کیلئے رچائی گئی سازش کے بطور دیکھا گیا۔حتیٰ کہ بعض مقامات پر رعایتی قیمتوں پر تقسیم کردہ یہ بلب بیچ سڑک پر پھوڑے گئے اور یہ شک کیا گیا کہ ان میں لوگوں کی جاسوسی کرنے کیلئے ایک خاص قسم کی چِپ لگائی جاچکی ہے۔
چناچہ گذشتہ سال دفعہ 370کے ہٹائے جانے کے بعد سے سسٹم کے تئیں شکوک و شبہات، بے اعتباری اور عدمِ اعتماد کی سطح کئی زیادہ بڑھ گئی ہے جیسا کہ دیگر متنازعہ علاقوں میں میں دیکھا جاچکا ہے۔ شکوک و شبہات اور بد اعتمادی کی فضا دُنیا کے اس خطہ کے لوگوں کیلئے نئی نہیں ہے بلکہ واحد فرق وجوہات کا ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچاؤ کے نام پر دیگر دو طرح کے زونز کے مقابلے میں ریڈ زونز کے لوگوں کو سخت بندشوں میں رکھا گیا ہے۔ سرینگر کے ڈاون ٹاون کے جیسے علاقے مکمل طور بند تھے کیونکہ انہیں ریڈ زون قرار دیا جاچکا تھا یہاں نہ کسی کو داخلہ ملتا تھا اور نہ ہی یہاں سے نکلنے کی اجازت ہے ماسوائے طبی ایمرجنسی کے ۔ لوگوں کی مدافعت ، گلیوں میں ہونے والے مظاہروں اور سرکاری فورسز پر سنگباری کو روکنے کیلئے لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں کہیں اپنی رہائش گاہوں میں یا جیلوں میں بند کردیا گیا تھا۔
یہ سارا خطہ کووِڈ 19- کی وبا سے پہلے مہینوں بند اور کرفیو سے دوچار رہا جسکے دوران انٹرنیٹ اور ٹیلی فون پر اضافی پابندی لوگوں، باالخصوص نوجوانوں کیلئے دردناک تھی۔ یہ پابندیاں بعدازاں اٹھائی گئی تھیں تاہم علاقہ اور مرحلہ وار بنیادوں پر ،اس خطہ کے لوگ آج بھی سُست رفتار 2 جی انٹرنیٹ تک محدود رسائی رکھتے ہیں۔
اس وقت جن علاقوں کو ریڈ زون قرار دیا جاچکا ہے، وہی علاقے ہیں جو پہلے ملٹری ریڈ زون تھے اور جہاں کے لوگ علیٰحدگی پسندی کے جذبے کو ختم کرنے کی سرکاری کوششوں کی شدید مزاحمت کرتے رہے ہیں۔یہ لوگ چیزوں کو سیاسی زاویہ سے دیکھتے ہیں اور جب بات سرکاری اقدامات کی ہو تو یہ لوگ بڑے حساس ہوجاتے ہیں۔
بانڈی پورہ،بارہمولہ اور کپوارہ کے تین سرحدی علاقوں کے ریڈ زونز کو،’’ٹرانزٹ پوائینٹس ‘‘کو بند کرنے کی خاطر لوگوں کا دماغ پڑھنے کیلئے، ایک بڑے گیم پلان کے حصہ کے بطور دیکھا جارہا ہے۔ اسی طرح جنوبی کشمیر میں پلوامہ اور شوپیان جیسے اضلاع میں علیٰحدگی پسندی کا رجحان زیادہ ہے اور یہاں جنگجوؤں کو آسانی سے پناہ مل جاتی ہے۔
البتہ مخالف سمت کے دانشوروں کا ماننا ہے کہ سرکار پوری دُنیا کو گھیرے میں لے چکے بحران کو لیکر کسی ایجی ٹیشن کی گنجائش نہیں چھوڑنا چاہتی ہے کیونکہ اگر موجودہ حالات میں کوئی ایجی ٹیشن شروع ہوئی تو اس کا خمیازہ اس سے کہیں زیادہ ہوگا کہ جو اس سے قبل کی ایجی ٹیشن کا تھا۔ گنجان آبادی والے علاقوں میں پہلے سے موجود سینکڑوں ہزاروں فورسز اہلکار موجودہ حالات میں لوگوں سے الجھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ ایسے میں انہیں اُس وائرس سے خطرہ ہوگا کہ جو پہلے ہی بعض علاقوں میں گُھس چکا ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی ایجی ٹیشن شروع ہوتی ہے تو سرکاری فورسز کیلئے لوگوں سے محفوظ فاصلہ (سوشل ڈسٹینس) بناتے ہوئے انہیں قابو کرنا یا انہیں گرفتار کرنا ایک بڑا چلینج ہوگا۔ بلکہ خود فوجی لوگ بھی موجودہ حالات میں احتجاجی بھیڑ سے الجھنے پر آمادہ ہونے سے انکار کرسکتے ہیں۔وادیٔ کشمیر میں موجود فوج اور نیم فوجی دستے بھی کورونا وائرس سے خوفزدہ ہیں اور عام لوگوں کی طرح وہ سبھی احتیاطیں برت رہے ہیں اور پروٹوکول اپنا رہے ہیں جو ماہرین کی جانب سے تجویز کئے جاچکے ہیں۔
کشمیر میں حقائق پر مفروضوں کا غلبہ ہے،حقیقت فقط اسی صورت میں غالب آسکتی ہے جب صاف دل اور آزاد سوچ کے ساتھ دیکھا جائے اور وہ بھی دونوں جانب سے۔شکی المزاجی دراصل بار بار کی دھوکہ دہی سے پیدا ہونے والے احساس کی عکاسی ہے،اس احساس کو دور کرنے کیلئے تمام تر ہمدردی کے ساتھ مرہم کاری کرنی ہوگی۔