ETV Bharat / state

اردو کے ساتھ دیگر زبانوں کو شامل کرنا قابل تشویش

جموں وکشمیر اردو کونسل کی جانب سے آج سرینگر میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں کونسل اور سول سائٹی کے سرکردہ ممبران نے مرکزی کابینہ کی جانب سے حالیہ سرکاری زبانوں کے حوالے سے لیے گئے فیصلے کے تناظر میں غوروخوص کیا گیا۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو
author img

By

Published : Sep 10, 2020, 10:00 PM IST

منعقدہ اجلاس میں مقررین نے یک زبان ہوکر اس بات کا اعادہ کیا کہ اردو زبان کی آئینی اور سرکاری حثیت برقرار رکھنے کے لیے ایک ہمہ جہت جدوجہد ناگزیر ہے جس کے لیے محبان اردو اور دیگر طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کو بھی شامل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اجلاس میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ گزشتہ دہائیوں سے اردو زبان کے ساتھ جو سوتیلی ماں جیسا سلوک رکھا گیا وہ بدستور جاری ہے جس کے نتیجے ایک آدھ سرکاری دفاتر کو چھوڑ دیگر تمام دفاتر کا کام کاج انگریزی زبان میں انجام دیا جارہا ہے۔

وہیں مقررین نے سوالیہ انداز میں کہا جب جموں و کشمیر میں واحد اردو سرکاری زبان ہونے کے ناطے فروغ نہیں پاسکے اب مزید چار زبانوں کو سرکاری درجہ دئیے جانے سے کس طرح اور کہاں سے اردو کے ساتھ انصاف ہوپائے گا۔ انہوں نے کہا جموں و کشمیر میں سرکاری دفاتر میں آجکل کے دور میں ڈوگری، ہندی اور کشمیری زبان کے ماہرین کہاں سے ملیں گے جو ان زبانوں کو سمھجنے، لکھنے اور پڑھنے کی مہارت رکھتے ہوں۔
سرکاری زبانوں کے حوالے سے یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس پر عمل کرنا مشکل ہی نہیں ہے بلکہ ناممکن ہے۔ اس طرح کے فیصلے سے یہاں کسی زبان کا بھلا نہیں ہوگا جبکہ ساری زبانیں بے اثر ہوں گی۔

کیا سرکاری زبان کا درجہ دینے سے زبانوں کا فروغ ہو سکتا ہے؟


اس موقعہ پر جملہ شرکاء نے نئی قومی تعلیمی پالیسی میں اردو زبان کو نظر انداز کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے وہیں سرکار پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جموں وکشمیر میں پانچ زبانوں کو سرکاری درجہ دئیے جانے کے فیصلے پر پھر سے نظر ثانی کریں۔

اجلاس میں سابق انفارمیشن کمشنر جی آر صوفی، سابق ناظم تعلیمات محمد رفیع، جسٹس نزیر فدا، پرائیوٹ اسکول ایسوسی ایشن جی این وار، نگینہ انٹر نیشنل کے مدیر اعلی وحشی سعید کے علاوہ جموں وکشمیر اردو کونسل کے جنرل سیکرٹری جاوید ماٹجی، شہباز ہاکباری، جاوید کرمانی اور صوفی علی محمد وغیرہ نے شرکت کی۔

منعقدہ اجلاس میں مقررین نے یک زبان ہوکر اس بات کا اعادہ کیا کہ اردو زبان کی آئینی اور سرکاری حثیت برقرار رکھنے کے لیے ایک ہمہ جہت جدوجہد ناگزیر ہے جس کے لیے محبان اردو اور دیگر طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کو بھی شامل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اجلاس میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ گزشتہ دہائیوں سے اردو زبان کے ساتھ جو سوتیلی ماں جیسا سلوک رکھا گیا وہ بدستور جاری ہے جس کے نتیجے ایک آدھ سرکاری دفاتر کو چھوڑ دیگر تمام دفاتر کا کام کاج انگریزی زبان میں انجام دیا جارہا ہے۔

وہیں مقررین نے سوالیہ انداز میں کہا جب جموں و کشمیر میں واحد اردو سرکاری زبان ہونے کے ناطے فروغ نہیں پاسکے اب مزید چار زبانوں کو سرکاری درجہ دئیے جانے سے کس طرح اور کہاں سے اردو کے ساتھ انصاف ہوپائے گا۔ انہوں نے کہا جموں و کشمیر میں سرکاری دفاتر میں آجکل کے دور میں ڈوگری، ہندی اور کشمیری زبان کے ماہرین کہاں سے ملیں گے جو ان زبانوں کو سمھجنے، لکھنے اور پڑھنے کی مہارت رکھتے ہوں۔
سرکاری زبانوں کے حوالے سے یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس پر عمل کرنا مشکل ہی نہیں ہے بلکہ ناممکن ہے۔ اس طرح کے فیصلے سے یہاں کسی زبان کا بھلا نہیں ہوگا جبکہ ساری زبانیں بے اثر ہوں گی۔

کیا سرکاری زبان کا درجہ دینے سے زبانوں کا فروغ ہو سکتا ہے؟


اس موقعہ پر جملہ شرکاء نے نئی قومی تعلیمی پالیسی میں اردو زبان کو نظر انداز کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے وہیں سرکار پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جموں وکشمیر میں پانچ زبانوں کو سرکاری درجہ دئیے جانے کے فیصلے پر پھر سے نظر ثانی کریں۔

اجلاس میں سابق انفارمیشن کمشنر جی آر صوفی، سابق ناظم تعلیمات محمد رفیع، جسٹس نزیر فدا، پرائیوٹ اسکول ایسوسی ایشن جی این وار، نگینہ انٹر نیشنل کے مدیر اعلی وحشی سعید کے علاوہ جموں وکشمیر اردو کونسل کے جنرل سیکرٹری جاوید ماٹجی، شہباز ہاکباری، جاوید کرمانی اور صوفی علی محمد وغیرہ نے شرکت کی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.