انقرہ: ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بہتر ہونے لگے ہیں۔ Israel–Turkey Relations لیکن اس دوران ترک صدر رجب طیب اردوگان Turkish President Recep Tayyip Erdogan نے واضح کیا کہ ان کا ملک فلسطینی مسائل کی حمایت جاری رکھے گا، بھلے ہی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرے۔ اردگان نے پارلیمنٹ میں اپنے قانون سازوں کو بتایا کہ "ہم نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کے لیے جو اقدامات کیے ہیں ان کا فلسطینی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"
سنہوا نیوز ایجنسی نے ترک صدر کے حوالے سے کہا کہ ترکی اسرائیل کے ساتھ سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی تعلقات کی وجہ سے فلسطینیوں کی حمایت ترک نہیں کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم یروشلم اور دیگر فلسطینی علاقوں پر قبضے سے آنکھیں بند کر لیں گے۔ اردوگان نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے دفاع کا موثر طریقہ اسرائیل کے ساتھ صحیح، مستقل اور متوازن تعلقات رکھنا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان گزشتہ ہفتوں میں کشیدگی بڑھ گئی ہے، خاص طور پر جب مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے دوران جمعہ کو یہودیوں کے فسح کا تہوار شروع ہوا تھا۔ یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے احاطے میں جمعہ کو فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس فورسز کے درمیان جھڑپوں میں 160 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے اور تقریبا 400 فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ مارچ کے وسط سے اب تک ملک کے 14 باشندے اسرائیل جارحیت کے شکار ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
Israeli Forces Raid Al-Aqsa Mosque: مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فوج کی کارروائی، عالمی برادری کی مذمت
Israel–Turkey Relations ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات 2010 میں اس وقت کشیدہ ہو گئے جب غزہ کی پٹی پر اسرائیلی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کرنے والے ترکی کی قیادت میں ایک فلوٹیلا (بحری جہازوں یا کشتیوں کا بیڑا) کی اسرائیلی فورسز سے جھڑپ ہوئی جس میں 10 ترک ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ 2018 میں ایک اور حالیہ تنازعہ میں، ترکی نے اسرائیل کے سفیر کو امریکہ کی جانب سے یروشلم منتقل کرنے کے بعد ملک بدر کر دیا تھا۔ دونوں ممالک حالیہ مہینوں میں مفاہمت پر کام کر رہے ہیں۔ 9 مارچ کو، اسرائیلی صدر اسحاق ہزاریگ نے انقرہ کا دورہ کیا، جس کے دوران اردگان نے واضح طور پر فلسطین کے معاملے پر ترکی کی حساسیت کا اظہار کیا۔