ETV Bharat / city

دفعہ 370 کی منسوخی: جمہوریت اور جمہوری حقوق کا گلا گھونٹا گیا - دفعہ 370 کی منسوخی کے دن کو یوم سیاہ قرار دیا

جموں و کشمیر کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں نے پانچ اگست یعنی دفعہ 370 کی منسوخی کے دن کو یوم سیاہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس دن جمہوریت اور جمہوری حقوق کا گلا گھونٹا گیا۔ پی اے جی ڈی نے لوگوں سے جموں و کشمیر کے خصوصی حیثیت کی بحالی کے لیے پرامن طریقے سے جدوجہد جاری رکھنے کی اپیل کی۔

j and k mainstream political parties declared august 5 a black day
دفعہ 370 کی منسوخی: جمہوریت اور جمہوری حقوق کا گلا گھونٹا گیا
author img

By

Published : Aug 5, 2021, 3:12 AM IST

دو برس قبل نصف درجن سیاسی جماعتوں کی جانب سے قائم پیپلز الائنس برائے گپکار اعلامیہ (پی اے جی ڈی) نے الزام لگایا ہے کہ دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد لوگوں کی نوکریاں اور قدرتی وسائل پر ان کے حقوق کو چھینا جا رہا ہے۔

پی اے جی ڈی نے لوگوں سے جموں و کشمیر میں خصوصی پوزیشن کی بحالی کے لیے پرامن طریقے سے جدوجہد جاری رکھنے کی اپیل کی۔ پیپلز الائنس برائے گپکار اعلامیہ کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی نے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ جموں و کشمیر کے لیڈروں کی کل جماعتی میٹنگ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی، کیونکہ مرکزی حکومت نے دلی اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے درمیان پیدا شدہ دوری کو ختم کرنے کے لیے اعتماد سازی کا کوئی بھی کام نہیں انجام دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بی جے پی کا نیا کشمیر ایک مذاق ثابت ہوا ہے اور آج جموں و کشمیر دلی سے جس قدر دور ہے اتنا ماضی میں کبھی نہیں رہا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ 5 اگست کو آئین ہند پر ہونے والے حملے کے دو سال مکمل ہوگئے، جس حملے سے دفعہ 370 کو ختم کر کے جموں و کشمیر کے بھروسے کو کچل دیا گیا۔

پی اے جی ڈی کے ترجمان نے بیان میں کہا کہ تاریخی ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت کو گھٹایا گیا اور اس کو 2 وفاقی ریاستوں میں منقسم کیا گیا۔ یہ فیصلے لوگوں کی مرضی کے برعکس لیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: جموں و کشمیر: دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کیا کچھ بدلا ؟: خصوصی رپورٹ

محمد یوسف تارے گامی نے کہا ہے کہ دفعہ35 اے کی منسوخی سے جموں و کشمیر کے مستقل باشندوں کی حیثیت کو بے کار بنا دیا گیا ہے اور نوکریوں اور اراضی کے حقوق کو ختم کیا گیا جس سے لوگوں میں عدم تحفظ اور عدم اعتماد کا احساس مزید گہرا ہو گیا۔

محمد یوسف تاریگامی نے اپنے بیان میں کہا کہ دفعہ 370 کی تنیسخ کے ساتھ ہی جمہوریت اور جمہوری حقوق کا گلا گھونٹنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ گزشتہ 2 برسوں سے یہ بات صاف طور سے واضح ہو چکی ہے کہ حکومت ہند ایسے غیر قانونی اقدام اٹھانے پر کیوں بضد تھی۔

ان دو برسوں کے دوران یہ دیکھا گیا کہ کس طرح لوگوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے، ان کو نوکریوں سے محروم رکھا جا رہا ہے اور ان سے قدرتی وسائل پر حقوق کو چھینا جا رہا ہے۔

جموں کشمیر پیپلز کانفرنس نے کہا کہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں5 اگست کو ہمیشہ کے لیے ایک سیاہ اور محرومی کے دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

پی سی کے ترجمان عدنان اشرف میر نے ایک بیان میں کہا کہ 5 اگست کو بے اختیاری کے دن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ اُس ذلت کی یاد دہانی کراتا ہے جس کا جموں و کشمیر کے عوام کو نشانہ بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد امن وقانون میں بہتری آئی ہے: چارو سنہا

عدنان اشرف نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو لیے گئے فیصلے قابل نفرت، جمہوری نظریات و اقدار اور بھارت کے وفاقی ڈھانچے کے برعکس ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلے انصاف اور وقار کے نظریات کے منافی ہیں جو کہ جمہوریہ ہند کے سیاسی نظام اور آئینی فلسفے کی بنیاد ہیں۔

اپنی پارٹی صدر سید محمد الطاف بخاری نے کہا کہ دفعہ 370 اور 35A کی منسوخی سے نہ صرف جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ چھینا گیا بلکہ اِس سے لوگوں میں اجنبیت اور اعتماد کے فقدان کا احساس حد درجہ تک بڑھا ہے۔

پارٹی کے ایک بیان میں اپنی پارٹی صدر نے کہا کہ آئین ہند کے تحت جموں وکشمیر کو خصوصی درجہ دیا گیا تھا جس کو غیر متوقع طریقہ سے ختم کر دیا گیا، جس نے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔

انہوں نے کہا ”جموں وکشمیر کے خصوصی درجے کا کچھ بھی متبادل نہیں لیکن ہمیں عدالت عظمیٰ پر یقین ہے کہ لوگوں کے مشترکہ مطالبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے انصاف فراہم کیا جائے گا۔

بخاری نے کہا کہ اب نئی دہلی میں ہر ایک کو یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ دفعہ 370جموں وکشمیر کی ترقی میں رکاوٹ نہیں تھا۔ بدقسمتی سے پانچ اگست 2019 کے بعد ہم نے جموں وکشمیر میں کوئی اہم ترقی نہیں دیکھی جس کا دفعہ 370 کی منسوخی کی وکالت کرنے والوں نے کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'جموں و کشمیر کی عوام سے کیے گئے کوئی وعدے پورے نہیں ہوئے'

اِس کے برعکس بیروکریسی نظام نے ثقافتی سامراجیت کے طریقوں کو سہل بنایا ہے جو مبارک منڈی جیسے ثقافتی ورثہ کے مقامات کو تجارتی اداروں میں تبدیل کرنے پر تُلے ہیں“۔

اپنی پارٹی کے صدر نے کہا کہ تاریخ ان حقائق کی گواہ ہے کہ کس طرح جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے ہوس اقتدار کی خاطر وقتاً فوقتاً دفعہ370 اور 35-A کو ختم کرنے میں ایک ساتھی کا کردار ادا کیا ہے۔

جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کیے جانے کے دو برس مکمل ہونے پر کہا کہ پانچ اگست کا دن ان کی سیاسی جماعت کے لیے یوم سیاہ ہوگا۔

انہوں کہا کہ اس دن کو جموں وکشمیر عوام یاد رکھے گی، جب ان کے حقوق پر شب خون مارا گیا اور اس کو لوگوں پر جیل و جبر کے ذریعے تھوپا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چار اگست 2019 کی وہ یادیں جو آج بھی تازہ ہیں

محبوبہ کا کہنا تھا کہ دفعہ 370 کی منسوخی سے جموں و کشمیر کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا اور اس کے حل کے لیے راہ مشکل ترین ہوگئی ہے اس کے علاوہ عوام کا بھروسہ بھی ٹوٹا ہے۔

محبوبہ نے کہا کہ گزشتہ دو برسوں میں نہ ہی ترقی کا کوئی کام ہوا اور نہ ہی عسکریت پسندی کا خاتمہ ہو سکا جبکہ ان ہی شرائط پر بی جے پی نے دفعہ 370 کو منسوخ کیا تھا۔ انھوں نے عزم کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی پی پانچ اگست کو غیر آئینی طریقے سے چھینے گئے حقوق کو واپس لانے کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔

دو برس قبل نصف درجن سیاسی جماعتوں کی جانب سے قائم پیپلز الائنس برائے گپکار اعلامیہ (پی اے جی ڈی) نے الزام لگایا ہے کہ دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد لوگوں کی نوکریاں اور قدرتی وسائل پر ان کے حقوق کو چھینا جا رہا ہے۔

پی اے جی ڈی نے لوگوں سے جموں و کشمیر میں خصوصی پوزیشن کی بحالی کے لیے پرامن طریقے سے جدوجہد جاری رکھنے کی اپیل کی۔ پیپلز الائنس برائے گپکار اعلامیہ کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی نے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ جموں و کشمیر کے لیڈروں کی کل جماعتی میٹنگ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی، کیونکہ مرکزی حکومت نے دلی اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے درمیان پیدا شدہ دوری کو ختم کرنے کے لیے اعتماد سازی کا کوئی بھی کام نہیں انجام دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بی جے پی کا نیا کشمیر ایک مذاق ثابت ہوا ہے اور آج جموں و کشمیر دلی سے جس قدر دور ہے اتنا ماضی میں کبھی نہیں رہا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ 5 اگست کو آئین ہند پر ہونے والے حملے کے دو سال مکمل ہوگئے، جس حملے سے دفعہ 370 کو ختم کر کے جموں و کشمیر کے بھروسے کو کچل دیا گیا۔

پی اے جی ڈی کے ترجمان نے بیان میں کہا کہ تاریخی ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت کو گھٹایا گیا اور اس کو 2 وفاقی ریاستوں میں منقسم کیا گیا۔ یہ فیصلے لوگوں کی مرضی کے برعکس لیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: جموں و کشمیر: دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کیا کچھ بدلا ؟: خصوصی رپورٹ

محمد یوسف تارے گامی نے کہا ہے کہ دفعہ35 اے کی منسوخی سے جموں و کشمیر کے مستقل باشندوں کی حیثیت کو بے کار بنا دیا گیا ہے اور نوکریوں اور اراضی کے حقوق کو ختم کیا گیا جس سے لوگوں میں عدم تحفظ اور عدم اعتماد کا احساس مزید گہرا ہو گیا۔

محمد یوسف تاریگامی نے اپنے بیان میں کہا کہ دفعہ 370 کی تنیسخ کے ساتھ ہی جمہوریت اور جمہوری حقوق کا گلا گھونٹنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ گزشتہ 2 برسوں سے یہ بات صاف طور سے واضح ہو چکی ہے کہ حکومت ہند ایسے غیر قانونی اقدام اٹھانے پر کیوں بضد تھی۔

ان دو برسوں کے دوران یہ دیکھا گیا کہ کس طرح لوگوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے، ان کو نوکریوں سے محروم رکھا جا رہا ہے اور ان سے قدرتی وسائل پر حقوق کو چھینا جا رہا ہے۔

جموں کشمیر پیپلز کانفرنس نے کہا کہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں5 اگست کو ہمیشہ کے لیے ایک سیاہ اور محرومی کے دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

پی سی کے ترجمان عدنان اشرف میر نے ایک بیان میں کہا کہ 5 اگست کو بے اختیاری کے دن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ اُس ذلت کی یاد دہانی کراتا ہے جس کا جموں و کشمیر کے عوام کو نشانہ بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد امن وقانون میں بہتری آئی ہے: چارو سنہا

عدنان اشرف نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو لیے گئے فیصلے قابل نفرت، جمہوری نظریات و اقدار اور بھارت کے وفاقی ڈھانچے کے برعکس ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلے انصاف اور وقار کے نظریات کے منافی ہیں جو کہ جمہوریہ ہند کے سیاسی نظام اور آئینی فلسفے کی بنیاد ہیں۔

اپنی پارٹی صدر سید محمد الطاف بخاری نے کہا کہ دفعہ 370 اور 35A کی منسوخی سے نہ صرف جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ چھینا گیا بلکہ اِس سے لوگوں میں اجنبیت اور اعتماد کے فقدان کا احساس حد درجہ تک بڑھا ہے۔

پارٹی کے ایک بیان میں اپنی پارٹی صدر نے کہا کہ آئین ہند کے تحت جموں وکشمیر کو خصوصی درجہ دیا گیا تھا جس کو غیر متوقع طریقہ سے ختم کر دیا گیا، جس نے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔

انہوں نے کہا ”جموں وکشمیر کے خصوصی درجے کا کچھ بھی متبادل نہیں لیکن ہمیں عدالت عظمیٰ پر یقین ہے کہ لوگوں کے مشترکہ مطالبہ کو مد نظر رکھتے ہوئے انصاف فراہم کیا جائے گا۔

بخاری نے کہا کہ اب نئی دہلی میں ہر ایک کو یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ دفعہ 370جموں وکشمیر کی ترقی میں رکاوٹ نہیں تھا۔ بدقسمتی سے پانچ اگست 2019 کے بعد ہم نے جموں وکشمیر میں کوئی اہم ترقی نہیں دیکھی جس کا دفعہ 370 کی منسوخی کی وکالت کرنے والوں نے کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'جموں و کشمیر کی عوام سے کیے گئے کوئی وعدے پورے نہیں ہوئے'

اِس کے برعکس بیروکریسی نظام نے ثقافتی سامراجیت کے طریقوں کو سہل بنایا ہے جو مبارک منڈی جیسے ثقافتی ورثہ کے مقامات کو تجارتی اداروں میں تبدیل کرنے پر تُلے ہیں“۔

اپنی پارٹی کے صدر نے کہا کہ تاریخ ان حقائق کی گواہ ہے کہ کس طرح جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے ہوس اقتدار کی خاطر وقتاً فوقتاً دفعہ370 اور 35-A کو ختم کرنے میں ایک ساتھی کا کردار ادا کیا ہے۔

جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اور پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کیے جانے کے دو برس مکمل ہونے پر کہا کہ پانچ اگست کا دن ان کی سیاسی جماعت کے لیے یوم سیاہ ہوگا۔

انہوں کہا کہ اس دن کو جموں وکشمیر عوام یاد رکھے گی، جب ان کے حقوق پر شب خون مارا گیا اور اس کو لوگوں پر جیل و جبر کے ذریعے تھوپا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چار اگست 2019 کی وہ یادیں جو آج بھی تازہ ہیں

محبوبہ کا کہنا تھا کہ دفعہ 370 کی منسوخی سے جموں و کشمیر کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا اور اس کے حل کے لیے راہ مشکل ترین ہوگئی ہے اس کے علاوہ عوام کا بھروسہ بھی ٹوٹا ہے۔

محبوبہ نے کہا کہ گزشتہ دو برسوں میں نہ ہی ترقی کا کوئی کام ہوا اور نہ ہی عسکریت پسندی کا خاتمہ ہو سکا جبکہ ان ہی شرائط پر بی جے پی نے دفعہ 370 کو منسوخ کیا تھا۔ انھوں نے عزم کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی پی پانچ اگست کو غیر آئینی طریقے سے چھینے گئے حقوق کو واپس لانے کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.